طالبان کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر بھی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوگا ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم بلاک جو استعماری منصوبہ بندی کا غلام ہے ،کس طرح طالبان کو تسلیم کرنے سے باز رہتاہے ۔کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک اگر علی الاعلان طالبان کے اقتدار کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر دنیا کے پاس انہیں تسلیم نہ کرنے کا کیا جواز ہوگا؟
یمن میں جارح ممالک ـ سعودی عرب، امارات اور سوڈان ـ کی فوجیں موجود ہیں اور امریکہ، برطانیہ، فرانس اور یہودی ریاست بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ اور محدود سطح پر، آدھمکے ہیں اور مؤخرالذکر کے مقاصد بھی بظاہر محدود ہیں۔ لیکن امارات کا کردار اس خونی کھیل میں منفرد سا ہے۔
اہم ترین سبق ان لوگوں کے لئے ہے جو جارح قابضوں کے ساتھ تعاون اور دوستی کرتے ہیں۔ یقینا ایک آزاد سرزمین ایسے افراد کو برداشت نہیں کرتی اور اپنی مادر وطن، دین اور تاریخ کے ساتھ غداری کی وجہ سے، انہیں تا حیات پورے کرہ خاکی میں بھاگتے رہنا پڑتا ہے۔
امریکی اور ان کے اتحادی نیٹو افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کی صورت حال حیران کن طور پر اور ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئی اور بلآخر آج 15 اگست 2021 کو تقریباً 20 سال کے بعد طالبان کابل میں دوبارہ داخل ہوگئے ہیں، جہاں سے امریکا نے انہیں بے دخل کیا تھا۔
ہندوستان بھی اسرائیلی مفاد پرستی اور دوستی کے پس پردہ اغراض و مقاصد سے بخوبی واقف ہے ۔مگر اسکی خارجہ پالیسی ابھی پوری طرح اسرائیل کی حمایت نہیں کرتی ہے ۔اسکے نقصانات سے ہندوستان اچھی طرح واقف ہے لہذا وہ اسرائیل نوازی کے باوجود ایران سے براہ راست دشمنی نہیں کرنا چاہتا
افسوس کہ مسلمان اتنا غافل ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان اتحاد تو کیا قدس کے بینر تلے بھی بعض افراد متحد نہیں ہیں اور بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے ایک ہی مکتب کے ماننے والے ، ایک ہی نبی و امام کے ماننے والے آپس میں یوں متصادم ہیں کہ گویا انکی خلقت ہی اس لئے ہوئی کہ جب شعور کی منزلوں میں قدم رکھنا تو کسی اپنے ہی بھائی کو دشمن بنا لینا اسکا گریبان پکڑ لینا اور اس سے جھوجھتے رہنا۔
اسرائیل جس قدر خوف کا مظاہرہ کرے گا اور فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات میں تیز رفتاری دکھائے گا، یہودی آبادی پر اتنا ہی خوف کے سائے منڈلانے لگیں گے، جس کے نتیجے میں ان کے پاس اپنے اپنے ملکوں میں واپسی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
عالمی استعمار نے بھی متذکرہ طفلانہ فرمولے کو عملایا ہے اور یوں ابلیسی کھیل کھیلنے کے لئے پورے مشرق وسطیٰ کو کھیل کا میدان بنارکھا ہے اور جب کسی ملک پر چڑھ دو ڑنے کا خیال اسے آتا ہے وہ دہشت گردی کے جن کو بوتل سے نکال اْس ملک میں پھینک آتے ہیں۔ دہشت گردی عالمِ استعمار کا سب سے بڑا کارگر حربہ ہے جس کو وہ مقصد برآوری کے لئے ایک عرصے سے آزماتا آ رہا ہے۔
اردوگان نے عالم اسلام کو ایک نیا ماڈل پیش کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی مخالفت بھی کی جا سکتی ہے اور اسرائیل کے سفیر کو اپنے ملک میں رسمیت بھی دی جا سکتی ہے۔