ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تعاون سے جو تحقیق سامنے آئی ہے اس میں سماجی کارکنان،سیاسی رہنما،صحافی اور آئینی عہدوں پر فائز شخصیات کی جاسوسی کا انکشاف ہواہے۔
طالبان نے ماضی کے برعکس اس بار بین الاقوامی طاقتوں سے مذاکرات کے لیے بہترین مذاکراتی ٹیم بنائی اور اس محاذ پر کافی کامیابیاں سمیٹی ہیں، سب سے بڑی کامیابی تو خود امریکہ سے تسلیم کرانا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل جائے گا یہ معمولی بات نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکام وقت ضائع کر کے عراقی پارلیمنٹ میں عراق سے امریکی فوجیوں کے جلد از جلد انخلاء پر مشتمل منظور شدہ بل کو غیر موثر بنانا چاہتے ہیں۔
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ میڈیا ہے اگرچہ پروپیگنڈہ کرنے کے دیگر وسائل جیسے کتاب، میگزین ، بروشرز، اور خاص کر سوشل میڈیا فیس بک و اٹس اپ سبھی اس مشینری کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسے بوقت ضرورت بہت آسانی کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے ذہنوں میں اتار دی جاتی ہے ۔
"موسم ریاض" کے عنوان سے اسلام مخالف اقدامات اور سرگرمیوں پر مشتمل یہ محفل عین اسی وقت منعقد کی جا رہی ہے جو حج کا موقع ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر اس کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف حج کے خلاف پابندیاں برقرار ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں یہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا کرونا صرف حج کو محدود کرنے کا بہانہ ہے؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اگر بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ ہے تو پھر مرکزی حکومت ’ نئی آبادی پالیسی‘ کے نفاذ میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی ہے ؟ کیا فقط اترپردیش کی بڑھتی ہوئی آبادی ریاست کے لیے خطرناک ہے ؟ اس کا تعلق ملک کی خوشحالی اور ترقی سے نہیں ہے ؟
امریکی حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے نہ تو فلسطین سے متعلق بیداری کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے عوام تک فلسطین کا پیغام پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ ایسے اقدامات سے امریکی حکومت کے انسانی حقوق کے دعوے اور آزادی اظہار رائے کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے اور دنیا کے سامنے امریکہ کا دوہرا معیار واضح ہو رہا ہے کہ امریکی حکومت ہمیشہ کی طرح ظالم اور جابر نظاموں اور قوتوں کی سرپرستی میں مشغول ہے۔
ایسے حالات میں علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناصبی عناصر اور تکفیری مائنڈ سیٹ کو ختم کریں اور ان کو عوام میں کمزور کرنے پر کام کریں، جب بھی مسلمان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں بیرونی طاقتیں داخلی فسادات میں الجھا دیتی ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات بحال کرکے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے ۔اسرائیل جوکہ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط جمائے ہوئے ہے ،اس کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔