من کے فوجی آپریشنز، چاہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کو ناکام بنانے والے آپریشنز ہوں یا تل ابیب کے قلب میں مسلسل میزائل حملے، دشمنوں کے لیے کئی اسٹریٹجک پیغامات کے حامل ہیں۔ یہ کاروائیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یمن اپنی مزاحمتی حکمت عملی دشمن پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کو ترکی کے شام میں عملی بازو کے ذریعے گرانا اور تل ابیب کا سرعام اس بات کا اعتراف کہ وہ اسد کی حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کر رہا ہے، صہیونی ریاست، اور شامی باغیوں کے درمیان خفیہ تعاون کا ثبوت دیتا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے رپورٹ دی ہے کہ جب تک شام کے تیل اور گیس کے وسائل ان علاقوں میں موجود ہیں جو امریکہ کے زیر اثر ہیں، جنگ سے تباہ حال شام کی معیشت کی بحالی ممکن نہیں ہوگی۔
صہیونی ریاست کے باشندوں کے مطابق، 14 ماہ کی غزہ میں جنگ کے بعد اسرائیل بین الاقوامی سطح پر ایک "تنہا جزیرہ" بن چکا ہے جو سخت پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔
صیہونی حکومت کے میڈیا نے یمن کے میزائلوں کے خلاف تل ابیب کی ناکامی کو ایک اسٹریٹجک خطرہ قرار دیتے ہوئے اس شکست کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
صہیونی حکومت کے چینل 12 پر نشر ہونے والے ٹی وی پروگرام "اوودا" نے حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر اعظم کے خاندان کے افراد کے خلاف اہم انکشافات کیے ہیں۔
مغربی طاقتیں، جیسے برطانیہ نے برصغیر میں اور ہالینڈ نے جنوب مشرقی ایشیا میں تجارتی کمپنیاں قائم کیں اور پھر انہیں ہڑپ لیا۔ مغربی طاقتوں، خاص طور پر اینگلو سیکسنز، کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا پر غالب آئیں۔ برطانوی عثمانی سلطنت کا سامنا نہ کر سکے اور وہاں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
فاران: داعش کی حالیہ سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے دوبارہ ابھرنے کی توقع کرنی چاہیے۔ اس دوران جہاں انقرہ خود کو اس معاملے پر فکر مند ظاہر کر رہا ہے، تل ابیب مطمئن نظر آتا ہے۔ فارس بین الاقوامی نیوز اہجنسی کے مطابق، “شامی حقوقِ انسانی پر نظر […]
فاران: شام میں 7 سے 18 دسمبر تک ہونے والے اسٹریٹجک واقعات ایک طے شدہ اور دستاویزی منصوبے کے تحت وقوع پذیر ہوئے ہیں، لیکن شام کا سیاسی مستقبل، حکومتی نظام اور خارجہ تعلقات اب بھی غیریقینی کا شکار ہیں۔ اردن میں عرب ممالک کا ہنگامی اجلاس، اس کا حتمی اعلامیہ، تحریرالشام کے رہنماؤں کے بیانات، […]