ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ان خطرات کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور ان پیشگی اقدامات کو اپنائے گا جو امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں صہیونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر مبنی ہیں۔ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ان خطرات کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور ان پیشگی اقدامات کو اپنائے گا جو امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں صہیونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر مبنی ہیں۔ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ان خطرات کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور ان پیشگی اقدامات کو اپنائے گا جو امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں صہیونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر مبنی ہیں۔ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ان خطرات کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور ان پیشگی اقدامات کو اپنائے گا جو امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں صہیونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر مبنی ہیں۔ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ان خطرات کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور ان پیشگی اقدامات کو اپنائے گا جو امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں صہیونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر مبنی ہیں۔
"تحریر الشام" اور دیگر گروہوں کی سرگرمیاں شام میں ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد ایران کی موجودگی کو محدود کرنا اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا ہے۔
افواہیں یہاں تک بڑھ گئیں کہ ایک تصویر کو صیدنایا جیل میں صدام حسین کی "رہائی" کے طور پر پیش کیا گیا۔ الجزیرہ جیسے بڑے ٹی وی چینل بھی اس جعلی تصویر کے جھانسے میں آگئے اور خبر دی کہ صدام حسین زندہ ہے اور صیدنایا جیل میں پایا گیا۔
شام میں حالیہ تبدیلیوں نے اقتدار کی منتقلی کو انتہائی پیچیدہ اور کشیدہ بنا دیا ہے۔ اسلام پسند باغیوں کے اتحاد، ہیئت تحریر الشام، جس نے دمشق کی جانب تیزی سے پیش قدمی کی، اب کئی حریف اپوزیشن گروہوں میں سے ایک ہے جو بشار الاسد کے بعد شام کے نظم و نسق پر متفق ہونا چاہتے ہیں۔
صہیونی ریاست کی حالیہ کارروائیوں نے شام میں مزاحمت کے حامی اور مخالف حلقوں میں یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ اسد حکومت کے زوال کے بعد بھی نیتن یاہو کیوں شام میں اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے؟
شام کو تباہی کی سرزمین میں بدل دینا صیہونی حکومت کے سنگین جرائم میں سے ایک ہے، جہاں ملک کے تمام دفاعی، سلامتی، علمی، تعلیمی، اور ثقافتی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے چار دن پہلے، انہوں نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت فوجیوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فوج سے سپاہیوں کا فرار جاری رہا اور نتیجہ سقوط دمشق کی صورت سامنے آیا۔
بشار الاسد کے بعد شام کا بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے، مگر امت مسلمہ کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے اتحاد اور حکمت سے اس مسئلے کو حل کرے۔ ایک مستقل اور منصفانہ سیاسی حل ہی شام کے عوام کو امن، ترقی، اور خوشحالی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل نے یکطرفہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جبل الشیخ اور اس کے ارد گرد کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیلی حکمت عملی کے مطابق، جو بھی اس پہاڑ پر قابض ہوگا، وہ پورے خطے پر کنٹرول رکھے گا۔