فاران تجزیاتی خبرنامہ: بشار الاسد کا سقوط اور دہشت گرد گروہوں کا شام پر قبضہ وسیع نتائج کا حامل ہے، جن میں شدت پسندی کا فروغ، غیر ملکی جنگجوؤں کی واپسی، اور خطے میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی و امن و سلامتی سے متعلق خطرات شامل ہیں۔ مہر نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی شعبہ کی رپورٹ کے […]
شام کی سرزمین، اس ملک کی فوج کے 11 دن میں ہتھیار ڈالنے کے بعد دہشت گردوں اور اسرائیل کے نسل پرست حکومت کے قبضے میں چلی گئی اور اس کے فوجی ڈھانچے کو بھی صرف 3 دن میں تباہ کر دیا گیا۔
2003 میں عراق پر امریکی قبضہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، اور اس کے اثرات دو دہائیوں کے بعد بھی خطے میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے کی سرحدیں، جیسا کہ نیتن یاہو نے اشارہ دیا، دوبارہ ٹرمپ کی نگرانی میں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی قیدیوں کے مسئلے کو وائٹ ہاؤس میں ان کے داخل ہونے سے پہلے حل نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیا جائے گا۔ اس دوران، کون ہے جو ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف کھڑا ہو سکے؟
اسرائیلی قابض فوج نے جنوبی شام کے قنیطرہ کے متعدد دیہات میں داخل ہو کر ان دیہاتوں کا محاصرہ کر لیا اور رہائشیوں کو اپنے گھروں کے چھوڑنے کا حکم دیا، البتہ اس مطالبہ پر ان دیہات کے باشندوں سے صہیونی ریاست کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
زندگی کے دشمن اس حقیقت کے سامنے بےبس اور کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو سختیوں سے گزر چکے ہیں اور آسانی کی قدر کو سمجھتے ہیں۔ دشمنوں کا ہتھیار تخریب اور رنج و الم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ علاقے کے لوگ طویل عرصے سے رنج میں زندگی کا راز سمجھ چکے ہیں۔
موجودہ شام کے تلخ واقعات اور المناک حالات، "اسرائیل کے سلسلہ سے طویل المدت حکمت عملی" کا حصہ ہیں، جس کی قیادت "یہودی بین الاقوامی عالمی تنظیم" کر رہی ہے۔
عبرانی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا وقت قریب ہے جبکہ ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل نے اعتراف کیا کہ غزہ کی جنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کئی غلط مفروضوں کے درمیان پھنس گئی ہے۔
جب جولانی کے دہشت گردوں نے حلب میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا تو انہوں نے فلسطین کے جھنڈے کے علاوہ تمام علامتوں کی بے حرمتی کی اور ظاہر کیا کہ وہ فلسطین کے حمایتی ہیں اور ایران کے دشمن۔ لیکن اب، جب اسرائیل نے ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کیا، تو ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔