شام کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے اسرائیل اسے محورِ مزاحمت سے دور کرنے اور اردن یا مصر کی طرح ایک دوست ملک میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔
این آتش بس به حزب الله فرصتی داده است تا انرژی خود را بازیابد، بنابراین در طول جنگ، در حالی که حزب الله متحمل خسارات مالی هنگفتی شده است، تلفات انسانی زیادی نیز داشته است، بسیاری از فرماندهان بزرگ حزب الله بہ شھادت رسیدند بنابراین برای به فرصتی برای جبران آن نیاز داشت۔
اس جنگ بندی سے حزب اللہ کو ایک فرصت ملی ہے کہ وہ اپنی توانائی کو دوبارہ بحال کر سکے اس لیے جنگ کے دوران جہاں حزب اللہ کا بے حد مالی نقصان ہوا ہے وہاں جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے اتنے عظیم کمانڈروں کی جانیں چلی گئی ہیں ان نقصانات کی بھرپائی کے لیے حزب اللہ کو ایک فرصت کی ضرورت تھی
غاصب اسرائیل ایک کے بعد ایک دہشت گردانہ کارروائی کے بعد مسلسل شکست کے دہانے پر پہنچتا چلا جا رہا ہے اور حزب اللہ کی کارروائیوں میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حزب اللہ کے بارے میں غاصب اسرائیلی دشمن کے دعوے اور حساب کتاب مکمل طور پر غلط ثابت ہوا ہے اور اسرائیل پہلے غزہ میں ناکام ہوا اور اب مسلسل لبنان میں ناکامی کا سامنا ہے۔
ایسے میں دنیا کے ان اداروں کے خود ساختہ ٹھیکداروں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے، جو دنیا کو امن و آزادی کے بھاشن دیتے ہیں۔ آسٹریلیا ہو یا امریکہ، دنیا بھر میں سڑکوں پر نکلے امن پسند عوام کی تو خیر یہ سنتے ہی نہیں ہیں۔
کل ارض کربلا و کل یوم عاشورا، ہر زمین کربلا ہے اور ہر دن عاشورا، ہم سب نے اپنے گریباں میں جھانک دیکھنا ہے کہ آج کی کربلا میں ہم صہیونی بلاک میں کھڑے ہیں یا مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ۔ ہاں اِس بات کا فیصلہ ہمارا قول نہیں عمل کرے گا ہماری حکمومتی پالیسیز کریں گی کہ وہ صہیونی نواز ہیں یا فلسطین کے حق میں۔
اب امریکہ اور غاصب اسرائیل مل کر اگر لبنان پر حملہ کرتے ہیں، تب بھی شکست ہے اور اگر حملہ نہ کریں تو بھی شکست خوردہ کہلائیں گے۔ یعنی حزب اللہ اس وقت win win پوزیشن میں موجود ہے۔ حزب اللہ کا واضح پیغام ہے کہ غزہ پر جارحیت کے خاتمہ تک غاصب صیہونی فوجیوں کے خلاف ہماری جوابی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی نے خبر دی ہے کہ فوج نے حکومت کے سیاسی رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جنوبی غزہ میں رفح آپریشن کو جلد از جلد ختم کریں اور لبنان پر حملے کو آگے بڑھائیں۔
یہ جنگ اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں رک جاتی۔ یہ حالات امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے آٹھویں دورہ مقبوضہ فلسطین کی بڑی وجہ ہیں جو عرب ممالک خاص طور پر مصر اور قطر کی ثالثی میں غزہ میں جنگ بندی کی امید پر انجام پایا ہے۔