افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسانی حقوق کا جھوٹا راگ الاپنے والی مغربی دنیا، دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آجائے، ٹھیکیدار بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں یوکرین پر چڑھائی کرنے کی وجہ سے روس کیخلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، کیونکہ یہاں ان کے ذاتی مقاصد اور مفادات ہیں۔ ورنہ یہی انسانی حقوق اور ہمدردیاں سالہا سال سے فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر نہیں جاگتیں۔
صیہونی ریاست ہر وہ اقدام کر رہی ہے، جس سے وہ اہل فلسطین کی مزاحمت کو کمزور اور پھر بعد میں ختم کرسکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی بحالی میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ بین الاقوامی طور پر یہ لابنگ کر رہی ہے کہ القدس فورس اور دیگر طاقتور ادارے جو فلسطینی مزاحمت کے حمایتی ہیں، ان پر پابندیاں برقرار رہیں۔
عالمی یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جب پوری اسلامی دنیا غاصب صیہونی حکومت کے خلاف بیزاری کا اظہار کرتی ہے اور مقدس شہر القدس (بیت المقدس) کی آزادی کے لیے ایک بار پھر ہم نوا ہو رہے ہیں۔
جماعت انصاف و ترقی کے مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی قربتیں حاصل میں کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں بھی، انہیں اندرون سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے بےشمار ساتھی انہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ترکی کے عوام اور جماعت کے راہنما اور اندر کے وہ لوگ ان پر منافقت کا الزام لگا کر انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ سکتے ہیں.
1857 سے لیکر 1947 تک 90 سال تحریک آزادی میں شامل 50 ملین لوگوں کی جد وجہد اور سعی پیہم سے حاصل ہونے والی آزادی کو کسی بھی صورت گنوایا نہیں جاسکتا/ سال پہلے ہمیں جو استقلال ملا ہے اور غلامی کی زنجیر کو ہمارے بزرگو نے ہمیشہ کے لئے ہمارے پیروں سے اتروا دیا ہے اور ہندوستان کا بنیادی قانون نافذ ہوا ہے وہ ہمارے لئے امن وامان اور سالمیت اور ہر ہندوستانیوں کے لیے مساوات ، برابری اور آزادی کا ضامن ہے
یہودیوں کے جرائم کی وسعت اور ان کے مظالم و جرائم سے کافی عرصہ گذر جانے کے پیش نظر بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ کچھ زیادہ دور نہ ہو؛ اور سخت لڑنے والے ثابت قدم جوانوں کا ظہور قریب ہو اور ہم سب شاہد ہوں عنقریب اس ریاست کی نابودی اور قبلہ اول اور قدس شریف کی آزادی کے۔
قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں طاغوت سے جہاد اور مستضعفین کی حمایت اہل ایمان کا فریضہ ہے اور آج ملت فلسطین اللہ کی راہ میں طاغوت کا مقابلہ کرنے میں سرفہرست ہے لہذا ان کی مدد کو پہنچنا تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے۔
سب اسے قبول کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے، اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب تھا نہ کہ حضرت اسماعیل کا۔۔۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسحاق کی نسل سے نہیں تو بنی اسرائیل کیسے؟ یہ دلیل عقلی ہے۔
اس تحقیق میں ہم صرف بنی اسرائیل کی حقیقت کو قرآن کی روشنی میں بیان کریں گے تاہم یاد رہے کہ موضوع کی طوالت اور عمق کے پیشِ نظر بہت سے ادبی نکات سے چشم پوشی کی گئی ہے اور نہایت سادہ الفاظ میں بحث کی گئی ہے تاکہ عام آدمی بھی اس تحقیق کو سمجھ سکے۔