حکمت عملی Tnuva "تنووا" کے تحت اسرائیل صرف اپنی فوجی صلاحیتوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اب اسموتریچ اور ان کی جماعت "مذہبی صہیونیت" مغربی کنارے میں اپنے مخصوص قوانین نافذ کر نے کے درپے ہیں اور ان قوانین کے ذریعے ایک نئی حکمرانی کی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور مغربی کنارے کو "اسرائیل" میں ضم کرنا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے "آہنی دیوار" آپریشن کے آغاز کو مغربی اردن کو اسرائیل کے ساتھ ضم کرنے کی پہلی قدم کے طور پر بیان کیا تھا، لیکن "آہنی دیوار" مزاحمت سے ٹکرا کر مٹی کی دیوار کی صورت ڈھہ گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں غزہ کی پٹی کو خالی کرانے اور وہاں کے دو ملین سے زائد فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان اختلاف اس وقت شدت اختیار کر گیے جب صہیونی ریاست نے شمالی غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی واپسی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، کیونکہ "آربل یہود" کی رہائی نہیں ہوئی تھی، جو کہ اب بھی مزاحمتی گروہوں کی قید میں ہے۔
اس وقت جبکہ صیہونی یہ توقع کر رہے تھے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں اسرائیل سے نفرت کا رجحان کم ہوگا، رپورٹیں اس رجحان کے تسلسل کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
فلسطینیوں کی لاشوں کو پگھلانے اور بخارات بنانے کا انسانیت سوز جرم صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں امریکی بموں سے انسانیت کے خلاف جرائم میں سے ایک ہے۔
صیہونی رژیم کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے جیل میں تشدد، جنسی زیادتی، کھانے پینے اور علاج سے محرومی کی تلخ داستانیں بیان کی ہیں۔
صہیونی حکومت نے آخر کار 15 ماہ کی بھاری اقتصادی قیمت ادا کرنے کے بعد نیزغزہ میں جنگ کے مقاصد میں ناکامی کے بعد جنگ بندی قبول کر لی۔