وہ ایران، عراق، شام، ترکی، قطر، عمان سمیت خلیجی ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ممالک کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، اسلامی بیداری کا سدباب کرنا چاہتے ہیں اور بحرین، نجد و حجاز، امارات اور مصر میں اسلامی بیداری کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا انسداد اور ان ممالک اور ریاستوں میں موجود استبدادیت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
ایس آر ایم جی انڈیپنڈنٹ کی مدد سے عربوں کے لئے عرب انڈیپنڈنٹ، ایرانیوں کے لئے فارسی انڈیپنڈنٹ، ترکوں کے لئے ترک انڈیپنڈنٹ اور پاکستانیوں کے لئے اردو انڈیپنڈنٹ پر تشہیری مہم چلانا چاہتی ہے۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو بولنے والے ممالک پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جو دین کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنے زوال کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
صہیونیوں کا یمن کے لیے ایک طویل المدۃ منصوبہ تھا جو کبھی یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے، کبھی یمن میں اپنے جاسوس چھوڑ کر اور کبھی اپنے آلہ کار سعودیہ کے ذریعے نیابتی جنگ کی صورت میں عملی جامہ پہن رہا ہے۔
عراق اور افغانستان کے خلاف امریکی جنگوں کے دوران پاولا مشرق وسطی میں اعلی امریکی فوجی عہدیدار کے طور پر تعینات تھی اور اسی منصب کی آڑ میں وہ کئی مرتبہ مقبوضہ فلسطین بھی گئی۔
مونیکا اور کلنٹن کی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کیا جاتا رہا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہ فلسطین پر قابض یہودی ریاست کے لئے کام کررہی تھی۔
زیادہ تر برطانوی اور امریکی تاجر اس جاسوسہ کے نشانے پر ہوتے تھے جنہیں وہ ان ہی افراد کے مخصوص نائٹ کلبوں میں شکار کرتی تھی۔
لیونی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلق قائم کرنا، موساد میں اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہا تھا اور وہ عرب حکام سے اہم سیاسی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے جنسی رابطہ قائم کرلیا کرتی تھی۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے۔