اب تک غزہ کے میدان جنگ میں اسلامی مزاحمت فاتح قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ البتہ اسرائیل بھی 11 ہزار بیگناہ فلسطینی شہریوں کی شہادت اور 27 ہزار زخمیوں کی بنیاد پر خود کو فاتح ظاہر کر سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی جنگی جرائم کو میدان جنگ میں فتح کا نام نہیں دیا گیا۔
نیتن یاہو کی انتہاء پسند حکومت کے قیام کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اندرونی تقسیم اور خلیج غیر معمولی طور پر گہری اور وسیع ہوگئی تھی، جس نے اسرائیل کے اندر سے ٹوٹنے کے امکانات کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ غزہ کی جنگ کے بعد اختلاف کی اس خلیج کو کچھ عرصے کے لیے ایک طرف کر دیا گیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تنازعات میں کمی کے ساتھ ہی اندرونی اختلافات نہ صرف دوبارہ شروع ہو جائیں گے بلکہ مزید پھیلیں گے۔
اسلامو فوبیا کے اس رجحان میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملے، اسلامی عبادت گاہوں کو جلانا، مسلمانوں کے خلاف زبانی حملے، دھمکیاں اور مختلف تعلیمی اور پیشہ وارانہ امور میں اسلام کے پیروکاروں کے خلاف امتیازی سلوک جیسے واقعات شامل ہیں۔ حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان لڑائی کے نام پر شکاگو میں ایک مسلمان ماں اور بچے کے خلاف حالیہ جرم بھی امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافے کی ایک علامت ہے۔
اسرائیل اپنی جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے حوالے سے بہت وسعت رکھتا ہے جبکہ اس کی پشت پناہی یورپی ممالک اور امریکہ جیسی نام نہاد سپر طاقتیں بھی کر رہی ہیں۔ لیکن فلسطین سے اکثر اسلامی ممالک نے شرمناک حد تک منہ موڑ رکھا ہے۔ لیکن اس کسمپرسی کے باوجود مسلم دنیا میں سے فلسطین کے مجاہدین نے وہ کام کر دکھایا ہے، جو کسی بڑی سے بڑی قوت کا بھی حوصلہ نہیں پڑتا تھا کہ اسرائیل سے جنگ کرے۔
فاران: علاقائی مسائل کے ماہر نعمت مرزا احمد نے ایک تجزیئے میں قدس کی غاصب حکومت کے خلاف الاقصیٰ طوفان آپریشن کی اہمیت اور اس کے نتائج پر گفتگو کی ہے۔ اس تجزیئے میں کہا گیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے نہ صرف تل ابیب بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا، بلکہ دنیا صیہونی […]
اسی طرح شام کی صورتحال بھی امریکہ اور اسرائیل کے لئے بالکل اچھی نہیں ہے۔ لبنان میں بھی مزاحمت کی موجودگی سے غاصب صیہونی حکومت کو شکست کا سامنا ہے۔ یمن کی صورتحال یمن کے حوثیوں کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے۔ سعودی حکومت کو شکست ہو رہی ہے اور کسی نہ کسی طرح سعودی حکومت اس شکست کو تسلیم کرنے کی طرف گامزن ہے۔۔۔
ہولو کاسٹ پر بات کرنا جس طرح اسرائیل نے جرم قرار دے رکھا ہے، اسی طرح دنیا میں اسرائیل کی جانب سے ہم جنس پرستی کے خلاف بات کرنے کو بھی انسانی حقوق کے خلاف بات تصور کرنے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔
صیہونی حکمرانوں نے فوج میں نافرمانی اور بغاوت کے آثار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صیہونی رژیم نے حالات کنٹرول کرنے کیلئے ایک نفسیاتی ہتھکنڈہ بھی استعمال کیا ہے اور ان دنوں مسلسل حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے بارے میں ڈاکیومنٹریز نشر کی جا رہی ہیں جبکہ حزب اللہ لبنان کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
بعض صیہونی ذرائع کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے میں روز افزوں خطرے کو کم اہمیت ظاہر کرنے کی وجہ صیہونیوں کو نفسیاتی دباو سے بچانا ہے۔ یروشلم پوسٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ مغربی کنارے سے فائر ہونے والے میزائلوں کو بڑا خطرہ بنا کر پیش کرنا باعث تشویش ہے۔ کیونکہ اس سے فلسطینی گروہوں کے اس مقصد کی تکمیل ہوتی ہے کہ اسرائیلیوں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔