بے شک غزہ کی مقاومت کی وسعت اور طاقت اور مغربی کنارے کی جہاد میں شمولیت اسرائیلی افواج کی مایوسی کی بہت بڑی وجہ ہے لیکن مقاومت کی تحریکوں کی فتوحات، جو یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی کا سبب بنی ہیں، بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست "خوف زوال" سے دوچار ہو چکی ہے کیونکہ اس کی بنیادیں امریکی امداد سمیت بیرونی امداد پر استوار ہوئی ہیں؛ لہٰذا جب بھی یہ بنیادیں لرزنے لگتی ہیں یا بیرونی امداد میں کمی آتی ہے تو اس ریاست کا خوف دوچنداں ہو جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صیہونی حکومت کو این پی ٹی میں شامل ہونے اور اس کی خفیہ جوہری سرگرمیوں کو ختم کرنے کی ضرورت سے متعلق قرارداد کو سفارت کاری میں ایک قدم آگے سمجھا جاسکتا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے اور اس کے لیے مزید انتظامی میکانزم کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
هرتزوگ نے ایسے عالم میں بحرین کا دورہ کیا ہے کہ بحرینی عوام نے اس سفر اور اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کے معاملے کے خلاف زبردست مظاہرے کئے ہیں۔
جعلی صہیونی ریاست، جو شیطان پرستی اور ہر بے راہروی کی داعی ہے، ہم جنس پرستی میں بھی کسی مغربیوں سے پیچھے نہیں ہے، یہی نہیں بلکہ وہ ہم جنس پرستوں کی جنت کہلاتی ہے۔
اسرائیل تو آگ لگا کر نکل جائے گا، سوچنا آذربائیجان کو ہے کہ کیا وہ قربانی کا بکرا بننا چاہتا ہے، جیسے آج کل یوکرین بنا ہوا ہے؟
میگزین 1945 لکھتا ہے کہ ایران کے پاس پانچ طاقتور ہتھیار ہیں جن سے امریکہ اور اسرائیل کو یکسان طور پر خوفزدہ ہونا چاہئے، ان ہتھیاروں میں سے ایک "سجیل" میزائل ہے جو تہران سے تل ابیب کا فاصلہ صرف سات منٹ میں کرتا ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ صرف حکومت یا سیاسی جماعتوں بلکہ صہیونی یہودیوں کے اندر بھی تیزی کے ساتھ انتہا پسندی کے جراثیم پیدا کررہا ہے۔
"ارجنٹائن کے جنوب میں پیٹاگونیا کے باشندوں کی بدسلوکی ایسے حال میں بڑھ گئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے میں نئے آنے والے یہودی در حقیقت اسرائیلی فوجی ہیں"۔