حزب اللہ اور اس کے سیکریٹری جنرل کی مقاومت اور ثابت قدمی نے ثابت کرکے دکھایا کہ صہیونی ریاست صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور پوری طاقت سے اس کے سامنے جم کر کھڑا ہونا چاہئے، تب ہی وہ بآسانی گھٹنے ٹیک لیتی ہے۔
ایران کے ایک صنعتی مرکز میں دھماکہ کرنے کی بدنام زمانہ صہیونی جاسوس-دہشت گرد ادارے "موساد" کی سازش کی ناکامی اور ایران کی انٹیلیجنس وزارت کے کارکنوں کے ہاتھوں موساد کے پورے نیٹ ورک کی گرفتاری کے بعد، اس ادارے نے اپنے چھ اعلیٰ افسروں کو تشویش کے دوران ہلاک کر دیا ہے۔
فلسطینی مجاہدین کی کاروائیوں کی حدود حالیہ ہفتوں میں جنین نابلس اور جنوب سے مقبوضہ قدس شریف تک پھیل گئی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ یہودی ریاست کے حکمرانوں کے بقول، "ماضی میں جنگ اسرائیل کے خلاف [باہر سے] ہؤا کرتی تھی اور آج جنگ اسرائیل کے اندر ہے"۔
صہیونی ریاست کے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ فوج میں لڑکیوں کی موجودگی مرد سپاہیوں کے جذبات بڑھانے میں مدد کرتی ہے اور ان سے جنسی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
یہ دیوار البراق سے متصل ایک محلہ ہے، یعنی مسجد اقصیٰ کے مغربی جانب واقع ہے جہاں مراکش کے مجاہدین آباد تھے۔ بارہویں صدی عیسوی میں القدس کو صلیبی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے صلاح الدین کی فوج کے ساتھ آئے تھے۔
میں یہ سوال اٹھاتا رہوں گا کہ آخر مغرب میں ہولوکاسٹ پر بات کرنا آزادی اظہار رائے کہ خلاف ہے تو پھر دنیا کی اقوام کے مذاہب اور ان کے مقدسات کی توہین کرنے اور توہین کرنے والوں کو پناہ دینا کیسے درست ہے۔؟ مغربی دنیا کی حکومتوں کے منہ پر ہولوکاسٹ ایک ایسا طمانچہ ہے کہ جس کی آواز ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
Haaretz اخبار نے اپنے ایک مضمون میں غزہ میں حالیہ تین روزہ جنگ کے نتائج پر بحث کی ہے اور اسے صہیونی فوج کی مکمل شکست قرار دیا ہے۔
یائیر لاپیڈ نے ایسے حال میں وزارت عظمیٰ کا موقع حاصل کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے۔ مقبوضہ سرزمینوں میں سیاسی اور معاشی کامیابیوں کو بڑھتے ہوئے آبادیاتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ عارضی جعلی ریاست مغرب کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا چاہتی تھی مگر ایک طرف سے 75 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک فلسطینیوں کے املاک پر قبضہ کرکے ملک سازی کے مرحلے کے ابتدائی نقطے پر کھڑی ہے، اور ملت سازی کا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے اور اسے نہ صرف ایک ریاست کی تشکیل کے عناصر کے فقدان کا سامنا ہےبلکہ سیاسی حوالے سے اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے؛