یائیر لاپیڈ نے ایسے حال میں وزارت عظمیٰ کا موقع حاصل کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے۔ مقبوضہ سرزمینوں میں سیاسی اور معاشی کامیابیوں کو بڑھتے ہوئے آبادیاتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ عارضی جعلی ریاست مغرب کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا چاہتی تھی مگر ایک طرف سے 75 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک فلسطینیوں کے املاک پر قبضہ کرکے ملک سازی کے مرحلے کے ابتدائی نقطے پر کھڑی ہے، اور ملت سازی کا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے اور اسے نہ صرف ایک ریاست کی تشکیل کے عناصر کے فقدان کا سامنا ہےبلکہ سیاسی حوالے سے اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے؛
صہیونی فوج کی جنگی صلاحیت حالیہ برسوں میں فلسطینی مقاومتی تنظیموں سے نمٹنے پر خرچ ہوچکی ہے، جبکہ مقاومتی محور کی ان طاقتور اور جنگی صلاحیتوں سے لیس تنظیموں اور ممالک نے ان برسوں کے دوران اسرائیل کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے؛
سابق امریکی صدر اوباما نے اسرائیل کو دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل یکطرفہ طور پر ایران کے خلاف فوجی اقدام کرنا چاہے تو امریکی فوج خود ہی ایسا حملہ روکنے کے لئے اقدام کرے گا!!!؟"
صہیونی اخبار "یدیعوت آحرونوت" نے فاش کیا ہے کہ بائڈن کے سفر کے آغاز سے پہلے، پس پردہ وسیع پیمانے پر کھچڑیاں پک رہی تھیں، اور کوشش یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں بائڈن کی آمد سے پہلے ہی سازباز کا یہ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔
حالیہ برسوں میں - مغربی ایشیا میں تیزرفتار تبدیلیوں کے موقع ہر - جعلی اسرائیلی ریاست نے کئی مرتبہ ڈینگ ہنکائی کا سہارا لے کر ایران کو براہ راست فوجی کاروائی کی دھمکی دی ہے!
ان تمام حالات اور مراحل کا حاصل یہ ہے کہ ایک طرف سے اسلامی مقاومت کے طاقتور ہونے کے ساتھ اسرائیل کی فیصلہ کن بیرونی مخالفت سامنے آتی ہے اور دوسری طرف سے صہیونی ریاست کے اندر بھی بہت سارے عوامل و اسباب ہیں جو اسے اندر سے منہدم کر رہے ہیں؛ خواہ بیرونی عوامل نہ بھی ہوں؛ تیسری طرف سے اسرائیل کو تقویت پہنچانے والے عناصر زوال پذیر ہوچکے ہیں۔
دنیا کے یہودیوں کی طرف سے صہیونی نظریئے کی منظم مخالفت کی لہر میں شدت اور مسلسل وسعت آ رہی ہے، اور فلسطین میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل، یہودی مذہبی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی، چنانچہ یہ مسئلہ بھی اسرائیل کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
بدقسمتی سے مراکش اور بعض عرب ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صہیونیوں کو یہودیوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں، اور بقول ان کے، آپ (بطور مسلم) ان کے ساتھ دوستانہ رابطہ قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے بقول یہ یہودی ہیں اور ایک الٰہی دین کے پیروکار ہیں۔