تمام تر فلسطینی مردوں اور خواتین کا غاصبوں اور قابضوں کے مقابلے میں میدان میں آنا - جو مستقبل میں جدوجہد اور مقاومت کی مزید وسعت اور طاقت کا موجب ہے - بھی صہیونیوں کے زوال کے امکانات کو تقویت پہنچا رہا ہے۔
صہیونی ریاست کی تاسیس کی بنیاد ہی دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین نقل مکانی کرنے کی ترغیب، پر رکھی گئی تھی۔ گو کہ صہیونی ایجنسی یہودیوں کی ایک بڑی آبادی کی مقبوضہ فلسطین منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن حالیہ عشروں سے اس ریاست کو معکوس نقل مکانی کا سامنا ہے۔
ایران کے قائد آیت اللہ خامنہ نے سنہ 2015ع میں اعلان کیا کہ "اسرائیل اگلے 25 برسوں کو نہیں دیکھ سکے گا؛ اور مسلمان مجاہدین کا دلیرانہ اور مجاہدانہ جذبہ اس عرصے کا ایک لمحہ بھی اس کو چین و سکون سے نہیں رہنے دیں گے"۔ آیت اللہ خامنہ سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی نے بھی اسرائیل کی نابودی کی خبر دیتے ہوئے اس کو "بہت قریب" قرار دیا تھا۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے اس وقت عرب اسرائیل جنگ کی داستان گھڑ لی جب صہیونیت یہودیوں کو مقبوضہ سرزمین میں آنے کی دعوت دے رہی تھی۔ ہم نے یہ جعلی داستان گھڑ لی تا کہ قوم یہود کے لئے ایک متحدہ سرزمین اور ایک خودمختار ملک کا انتظام کر سکیں۔
سائبر حملوں کے مقابلے میں جعلی صہیونی ریاست کی شکست تل ابیب کے لئے بڑے چیلنج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ان حملوں نے سرکاری ویب گاہوں سے لے کر صہیونی حکام کے موبائل فون تک کا امن چھین لیا ہے۔
موجودہ اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "اسرائیلی شہریوں کو بہت اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ ہم لیکوڈ پارٹی کی سربراہی میں ایک وسیع کابینہ تشکیل دیں گے۔
مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی مقاومتی کاروائیوں نے غاصب صہیونیوں کو تل ابیب کو ایک سال تک مسلسل بدامنی سے دوچار کئے رکھا اور اس بدامنی نے 75 سالہ تنازعے کے قواعد بدل ہی ڈالے؛ اور دہشت کا توازن (Balance of Terror) قائم کر دیا۔
میدان نے اصل کڑی کے طور پر اسرائیل اور امارات کے درمیان سیکورٹی تعاون کو مستحکم کیا۔ سنہ 2020ع (ڈیجیٹل ڈیٹا جمع کرنے، اس کا تجزیہ کرنے، جائزہ لینے اور انتظام کرنے کے شعبے میں سرگرم اسرائیلی کمپنی) سیلبرائٹ کو واگذار ہونے والے ٹھیکے میں بھی بنیادی کردار میدان نے ادا کیا۔
فلسطین کی مقبوضہ سرزمین حالیہ ایک سال کے دوران - جبکہ متعدد عرب ممالک اور ترکی نے خیانت کرکے صہیونی ریاست کو تسلیم کیا ہے – مختلف قسم کی بدامنیوں اور مقاومت اسلامی کے پھیلاؤ کی شاہد رہی ہے اور ان بدامنیوں نے تل ابیب اور صہیونی بستیوں کے نوآبادکاروں کی تقدیر کو آگ سے جوڑ دیا ہے۔