ہرٹزل کے تفکرات سے معرض وجود میں آنے والے طفیلیوں کی موت کی گھڑی قریب آئی ہے اور دنیا اسرائیل کے بغیر کے جغرافیے کی طرف رواں دواں ہے؛ مسلمان طاقتور بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اسلامی مزاحمتی حلقوں کے آگے قدم جمانے کی ہمت و سکت نہیں رکھتا۔
امام خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۹۱ کو فرمایا: “اسرائیل کا انجام نابودی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوئی سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ مشرقی بڑی طاقت (سوویت روس) اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی
شیعہ علماء غصب فلسطین کے آغاز ہی سے ـ اپنے فکری استقلال، خدائے واحد و احد پر توکل اور عوامی قوت پر بھروسے کی بنا پر ـ اس غیر انسانی اقدام کے سامنے ڈٹ گئے اور غاصب یہودیوں کا سکون برباد کردیا۔
بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کے فروغ سے نہ صرف بر صغیر میں مسلمان معاشرے کو کمزور بنایا جائے گا بلکہ قوم پرست ہندو سماج کو مزید تقویت ملے گی اور ممکن ہے مستقبل میں بر صغیر کے مسلمانوں کا وہی حال ہو جو اس وقت غزہ کے مسلمانوں کا ہے۔
اسرائیل کو افریقی یونین میں مبصر رکن کا درجہ دینے کے خلاف افریقی ممالک کی نمائندہ شخصیات کی طرف سے احتجاج جاری ہے۔
اسلامی جہاد نے عرب ملکوں اور ان کی حکومتوں پر مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور فلسطینی کاز کےحوالے سے ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ناکامی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرب دنیا نے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔
ڈیوڈ کا ماننا ہے کہ غیر اخلاقی و تاریخی فحش فلمیں جنکو کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں یہودیوں کی ہدایت کاری میں اور انہیں کے سرمایہ سے سامنے آتی ہیں۔
ڈیوڈ دسمبر ۲۰۶ ء میں ہلوکاسٹ کے سلسلہ سے ہونے والی کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک اہم مقرر تھے، انہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا جو بھی آج کی دنیا میں ہلوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے وہ ایک دلیر و شجاع انسان ہے۔
اس یہودی لیڈر نے مزید کہا کہ جب کسی سرزمین پر اس کے اصلی لوگ زندگی گذار رہے ہوں تو وہاں کسی نئے ملک کو نہیں بنایا جاسکتا۔ چونکہ فلسطینی، فلسطین کے اصل مالک ہیں لہذا وہاں اسرائیل کا ہونا بے معنی ہے۔