مقبوضہ بیت المقدس میں قابض اسرائیل کی نام نہاد بلدیہ نے مسجد اقصیٰ کے قریب سلوان کے مقام پر رہائش پذیر فلسطینیوں سے 100 فلیٹ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسرائیل میں آباد عرب شہریوں اور مکینوں پر 2003 ءسے اپنے فلسطینی شریکِ حیات سے ملنے پرعاید پابندی ختم ہو گئی ہے اور اسرائیلی پارلیمان اس متنازع قانون میں توسیع کی منظوری دینے میں ناکام رہی ہے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلقات وجود میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ تعلقات انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالیسٹک میزائیل، خلائی پروگراموں اور اسلحہ سازی کی صنعت کے میدان میں تعاون کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔
’’اوزی رابی‘‘ اس سینٹر کے سربراہ ہیں وہ تل ابیب یونیورسٹی میں مطالعات ایران کے پروفیسر تھے۔ ان کی تحقیقات مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور معاشروں کے حالات، ایران اور عرب ریاستوں کے تعلقات، مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر، اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلافی مسائل جیسے موضوعات سے مخصوص ہیں۔
پروفیسر سامی الارین در حقیقت شمالی امریکہ میں جہاد اسلامی کے سربراہ تھے جنہیں امریکہ کی حکومت کی جانب سے خود کش حملوں کے الزام کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے سالانہ سرمایہ اور حصص کو ضرورت مند افراد کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کرتی ہے، اور اسکا مقصد یہودیوں کے درمیان زندگی گزارنے کی خواہش و چاہت کو ابھارنا اور نیویارک میں یہودی انجمنوں کو مضبو ط بنانا ہے چنانچہ اسکا سالانہ سرمایہ اور اسکے حصص سے ہونے والی آمدنی کا بجٹ انہیں دو کاموں سے مخصوص ہے ۔
مولف اپنی کتاب کی ایک اہم ترین فصل میں امریکہ کے زوال کے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلسل نابودی کی طرف گامزن ہے۔