قابض صہیونی فوجیوں نے جمعہ کے روز نابلس اور جنین میں فلسطینیوں پر حملہ کیا جسمیں درجنوں فلسطینی زخمی ہو گئے۔
امریکی حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے نہ تو فلسطین سے متعلق بیداری کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے عوام تک فلسطین کا پیغام پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ ایسے اقدامات سے امریکی حکومت کے انسانی حقوق کے دعوے اور آزادی اظہار رائے کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے اور دنیا کے سامنے امریکہ کا دوہرا معیار واضح ہو رہا ہے کہ امریکی حکومت ہمیشہ کی طرح ظالم اور جابر نظاموں اور قوتوں کی سرپرستی میں مشغول ہے۔
قابض اسرائیلی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک فلسطینی نوجوان کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا۔
مقبوضہ بیت المقدس میں قابض اسرائیل کی نام نہاد بلدیہ نے مسجد اقصیٰ کے قریب سلوان کے مقام پر رہائش پذیر فلسطینیوں سے 100 فلیٹ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے بیرون ملک سیاسی امور کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کا پروگرام مزاحمت اور فلسطین کی آزادی کے گرد گھومتا ہے اور وہ کسی کے خلاف جنگ نہیں چھیڑنا چاہتے۔ انہوں نے سعودی عرب پر زور دیا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ تعلقات اورقضیہ فلسطین کے حوالے سے اپنے سابقہ کردار کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔
اسرائیل میں آباد عرب شہریوں اور مکینوں پر 2003 ءسے اپنے فلسطینی شریکِ حیات سے ملنے پرعاید پابندی ختم ہو گئی ہے اور اسرائیلی پارلیمان اس متنازع قانون میں توسیع کی منظوری دینے میں ناکام رہی ہے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
پروفیسر سامی الارین در حقیقت شمالی امریکہ میں جہاد اسلامی کے سربراہ تھے جنہیں امریکہ کی حکومت کی جانب سے خود کش حملوں کے الزام کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے سالانہ سرمایہ اور حصص کو ضرورت مند افراد کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کرتی ہے، اور اسکا مقصد یہودیوں کے درمیان زندگی گزارنے کی خواہش و چاہت کو ابھارنا اور نیویارک میں یہودی انجمنوں کو مضبو ط بنانا ہے چنانچہ اسکا سالانہ سرمایہ اور اسکے حصص سے ہونے والی آمدنی کا بجٹ انہیں دو کاموں سے مخصوص ہے ۔