حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ "بنی امیہ کی حکومت حرام ہے" اور "اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو"، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں۔
اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ دہشت گردی کی اِن کمزور کاروائیوں سے حسین ابن علی کی مجلسوں اور جلوسوں پر اثر پڑے گا تو یاد رکھیے کہ عزادارانِ مظلومِ کربلا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر مجالسِ عزا کو رونق بخشیں گے۔
امام حسینؑ کی شہادت ظلم کے خلاف جدوجہد کا بہترین استعارہ ہے ۔جب بھی کسی ظالم و جابر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے تو واقعۂ کربلا کو پُرقوت استعارہ کے طورپر استعمال کیا جاتا رہاہے ۔
یزید کی ماں عیسائی تھی ’میسون‘ اس کا نام تھا معاویہ نے یزید کی ماں کو اپنے دربار سے نکال کر اس کے قبیلے میں واپس بھیج دیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے غلام سے ناجائز تعلقات رکھتی تھی اور یزید بھی انہیں ناجائز تعلقات کا نتیجہ تھا جو میسون اپنے غلام سے رکھتی تھی۔
جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام کی یہ منزلت یوں ہی نہیں ہے اس کے پیچھے ، آُپکی غیرت، وفا ، شجاعت، آپکا ثبات قدم ، اور لفظوں کو سمیٹ کر کہا جائے تو آپکا خلوص ہے، آپکے وجود میں پایا جانے والا جذبہ اطاعت امام ہے ، وہ جذبہ اطاعت امام جو بندگی سے فروغ حاصل کرتا ہے
حقیقت یہی ہے کہ واقعہ ٔ کربلا ایک صف اور لشکر کے درمیان کا معرکہ ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیاہے ۔یزید چاہتا تھا کہ حسینؑ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ وہ علی الاعلان فسق و فجور کرسکے ۔اس کے بعد یزید کے غیر شرعی اعمال اور خلاف اسلام حرکات پر کوئی آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔
یقینا جب ہم عزاداری کے ایام میں واقعۂ عاشورا کے اسباب کو جان لیتے ہیں تو یہودی کردار پہلے سے بہت زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور ہم بہ آسانی جان لیتے ہیں کہ عاشورا کی تاریخ میں تحریف کا اصل مقصد یہ ہے کہ یزید کے آقاؤں کے کردار کو چھپایا جائے ورنہ تو شیعیان کوفہ کو شہادت حسین(ع) کا ملزم نہ ٹہرایا جاتا، بات یہ ہے کہ کوفہ میں ہزاروں یہودیوں کی سکونت کو تاریخ کے صفحے سے مٹا دیا جائے اور کربلا کے واقعے میں ان کے کردار کو خفیہ رکھا جائے ورنہ تو مسلمان خلیفہ کے عنوان سے حکومت کرنے والے یزید اور اس کے اسلاف کی رسوائی ہوگی۔
کربلا آج بھی بپا ہے، یزید آج بھی ہے، شمر و سنان آج بھی ہیں، بنو امیہ کے نظریات پر لشکروں کے لشکر تشکیل پاچکے ہیں، کہیں پر داعش کے سیاہ جھنڈے تو کہیں پر طالبان کے سفید پرچم دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل اپنا پورا سرمایہ خرچ کررہا ہے۔
بعض مسائل ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کو کریدا جائے تو اس سے داستان کربلا کے تقدس کو نقصان پہنچے گا اور اس کا واحد نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ کہیں گے "یہ مسئلہ اگر جھوٹا تھا تو وہ دوسرا مسئلہ بھی یہی ہے" اور اس قسم کی تحقیق کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ بھی نہيں ہوگا۔