اگر دوسرے ممالک اس سبق کو اچھی طرح سیکھتے تو وہ بھی تمام تر تباہیوں، سازشوں اور یلغاروں کا جم کر مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات حاصل کرتے۔
امام حسین علیہ السلام نے یہ درس عظیم اس امت کو دے دیا اور آپ کی شہادت اور کربلا کے جان سوز واقعے کے بعد نہ صرف پیروان اہل بیت اور امامت و ولایت کے معتقدین نے یہ درس سیکھ لیا بلکہ خوارج بھی، بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ معاشرہ جتنا آگے بڑھتا گیا حالات خراب تر ہوئے یہاں تک کہ 50 سال بعد، یہ معاشرہ دوران جاہلیت سے بھی بدتر ہؤا؛ یعنی انھوں نے اسلام کی ناقص اور ظاہری صورت کو اختیار کرلیا تھا لیکن اندر سے اس قدر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعلیمات سے دور ہوچکے تھے کہ سابقہ جاہلیت سے کئی گنا بڑی جاہلیت ان کے ہاں پلٹ آئی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ "بنی امیہ کی حکومت حرام ہے" اور "اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو"، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں۔
خدارا گستاخ صحابہ پر ایف آئی آر والے مسائل کو سلجھائیں، ذمہ دار افراد اس مسئلے پر ہرگز خاموش نہ رہیں۔ اگر ہر ایک کو گستاخ صحابہ کے کٹہرے میں لایا جائے تو کئی فرقے ایک دوسرے کو گستاخ قرار دیتے ہیں۔ شافعی تو معاویہ کے منکر ہیں اور جہنمی قرار دیتے ہیں، صحاح ستہ کی روایات سے معاویہ اور بنوامیہ کی توہین ہوتی ہے، پھر تکفیری کس وجہ سے گستاخ صحابہ کا نعرہ لگاتے ہیں؟ خدارا اس مسئلے کو علماء اور ادارے مل بیٹھ کر حل کریں ورنہ یہ معاملہ پاکستان جیسے گلستان کو اجاڑ دے گا۔
حکومت حق عوام کے تعاون کے بغیر قائم نہیں ہؤا کرتی؛ جب کوفہ نے حکومت حق کے قیام کا ارادہ ظاہر کیا تو امام حسین علیہ السلام پر واجب ہؤا کہ ان کی دعوت قبول کریں۔
یہ جو آج یزید زندہ باد کے نعروں کی حمایت کر رہے ہیں، یزید رضی اللہ کے نام سے کتب شائع کرکے کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ تاریخ نئی نہیں ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل بنو امیہ نے مورخ خریدے۔بھرپور میڈیا نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا۔طاقت، منبر، محراب، فوج، سپاہ اور علمائے سوء باقاعدہ طور پر خریدے گئے تاکہ درہم و دینار کے عوض حدیثیں گھڑی جائیں۔
اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ دہشت گردی کی اِن کمزور کاروائیوں سے حسین ابن علی کی مجلسوں اور جلوسوں پر اثر پڑے گا تو یاد رکھیے کہ عزادارانِ مظلومِ کربلا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر مجالسِ عزا کو رونق بخشیں گے۔
امام حسینؑ کی شہادت ظلم کے خلاف جدوجہد کا بہترین استعارہ ہے ۔جب بھی کسی ظالم و جابر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے تو واقعۂ کربلا کو پُرقوت استعارہ کے طورپر استعمال کیا جاتا رہاہے ۔