محمد شاہد عالَم (Professor M. Shahid Alam) نے کاؤنٹر پنچ نامی دو ماہی رسالے میں اپنے دعوے کی یوں وکالت کی: “ممکن ہے کہ امریکیوں نے اپنی جنگ آزادی میں عام شہریوں کو نشانہ نہ بنایا ہو لیکن وہ جرائم کے مرتکب ضرور ہوئے اور عام اور نہتے شہریوں کو ضمنی طور پر نقصان پہنچایا”۔
ادارہ "آئی این ایس ایس" سلامتی، دہشت گردی اور عسکری امور پر متعدد مقالات اور کتابیں انگریزی اور عبرانی زبانوں میں شائع کرتا ہے۔ ان میں ہی میں سے ایک اہم تحقیقی مقالہ ایران کے میزائل سسٹم کے بارے میں ہے جس کا عنوان "ایران کا میزائل سسٹم: بنیادی تسدیدی اوزار" ہے۔
پروفیسر ڈوہرن نے اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: "ہم نے جنگ کا بھی مقابلہ کیا اور نسل پرستی کا بھی؛ نیز ہم نے یہ بھی سیکھا کہ صرف امریکہ میں کچھ افراد کی زندگی ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ تمام انسانوں کی زندگی ایک سطح پر قابل قدر اور اہم ہے"۔
پروفیسر الگر کا کہنا ہے کہ چونکہ سیاسی لحاظ سے کسی مذہب کے خلاف جنگ کرنا درست نہیں ہے لہذا مذہب کے ساتھ ایک صفت کا اضافہ کیا جائے تاکہ جنگ کا جواز فراہم کیا جا سکے؛ جیسے جنگ طلب اسلام، انتہا پسند اسلام، اسلامی دھشتگردی، بنیاد پرست اسلام اور سیاسی اسلام۔ امریکیوں نے ’’جنگ طلب اسلام‘‘ کو اپنا دشمن معین کیا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف اس کی سازشیں اب راز نہیں رہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات پر اسرائیل کے سب سے موقر اخبار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ واحد اسرائیل دشمن ایٹمی سائنسدان تھا، جو اپنی موت سے بستر پر مرا۔
نوآم چامسکی نے کہا: ایران سے نفرت کی جڑیں جدید امریکہ کی ثقافت میں بہت گہری ہیں اور ایران سے نفرت کی جڑوں کا اکھاڑ پھینکنا بہت دشوار ہے۔
شہریاری نے کہا کہ یمن اور فلسطین کے مظلوم عوام کی مدد کے طریقوں میں سے ایک تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کیجانب سے ایک منصوبے کا نفاذ ہے اور ہم نے دنیا بھر کو اطلاع دی ہے کہ ہم فلسطینی عوام کی امداد کر سکتے ہیں۔
نوآم چامسکی امریکی پروفیسر، ماہر لسانیات، نظریہ پرداز اور مفکر ہیں جنہوں نے ایک مکالمے کے دوران کہا ہے کہ ۱۹۷۹عکے انقلاب کے بعد استقلال اور خودمختاری کی طرف حرکت شروع کی چنانچہ امریکہ کے سیاستدان تہران سے نفرت کرنے لگے اور اس نفرت میں مسلسل شدت آرہی ہے۔
امریکہ کے جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف مارک میلی نے افغانستان میں امریکا کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی ایک اسٹریٹیجک شکست تھی۔