مشہور امریکی سائنسدان اور تجزیہ نگار نے کہا کہ امریکہ نے 20 سال قبل "دہشت گردی سے لڑنے" کے لیے جو جنگ شروع کی تھی اس نے دنیا کے بیشتر حصوں میں تباہی مچا دی ہے۔
افغانستان سے امریکہ کا فرار خود بخود انجام کو نہيں پہنچا ہے اور یہ واقعہ ایک جماعت یا گروہ کی ذہنی صلاحیت سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ افغانستان، عراق اور علاقے کے دوسرے ممالک سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ، اسلامی جمہوریہ ایران کا منصوبہ ہے جس کو پوری باریک بینی کے ساتھ، خاص قسم کی نظام الاوقات کے مطابق، اور علاقائی قوتوں کے برادرانہ اور مصلحانہ تعاون کے ساتھ، نافذ کیا گیا۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے۔
لبنانی عوام مزاحمت کو اپنی فتح ، آزادی اور فخر کا ایک عنصر سمجھتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، مزاحمت لبنانیوں کے لیے ایک قومی علامت ہے، اور عوام کسی بھی طرح اس کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے۔
عبرانی چینل "کے اے این" کے مطابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ ایک سنگین واقعہ ہے جس کے لیے تمام اسرائیلی سیکورٹی سروسز کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
صہیونی تھنک ٹینک نے مزید لکھا: علاوہ ازیں کہ اسرائیل کو عینی اور عملی لحاظ سے اپنے اقدامات کے لئے اس امریکی منصوبہ بندی کا پورا ادراک کرکے، منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد اور دوستی اور اس کی حمایت میں سچا بھی ہو، پھر بھی یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ ملک مستقبل میں اپنے فوجی وسائل کو اس علاقے کے چیلنجوں - بالخصوص ایران کی پالیسیوں سے جنم والے چیلنجوں - سے نمٹنے پر صرف کرنا چاہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے انخلاء کے عمل کی تشریح کے ضمن میں زور دے کر کہا کہ چین اور روس کی خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان میں تعینات رہیں تاکہ وہ اس کو کمزور کرسکیں۔
کیا افغانستان پر 20 سال تک قبضہ جمانے والے امریکہ کی شکست اور مغربی جمہوریت کی بنیاد پر اس ملک میں ملت سازی میں ناکامی، کیا واشنگٹن کی بین الاقوامی پوزیشن کو متاثر کرے گی؟ اور دوسرا سوال یہ کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لئے کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
جیمز پیٹراس لکھتے ہیں کہ آج کے معاشروں میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بحث و مباحثے کی آزادی اور اسرائیلی لابیوں پر علی الاعلان تنقید کے لئے تحریک چلائی جائے۔