گذشتہ ایک عشرے کے دوران مغربی ایشیا میں محاذ مزاحمت نے اپنی لا زوال قوت کے ذریعے دہشت گردی اور دہشت گردوں، دہشت گردی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں لیکن اگلے مرحلے میں داعش کا نشانہ بننے والے ممالک میں مزاحمت کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان ممالک میں کلاسیکی افواج دہشت گردی کی ابتدائی شکلوں کے مقابلے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
عربی اور اسلامی دنیا میں داعشی سرگرمیوں کی حدود میں توسیع ڈیموکریٹوں کی نیابتی جنگوں (Proxy Wars) کے حوالے سے جانی پہچانی پالیسیوں کی یاد دہانی کرا رہی ہے اور یہ پالیسی ان ملکوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو اپنی سرزمین پر تناؤ اور تنازعات کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔
جو چیز علاقے کے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس کی ایک مثال گزشتہ روز افغانستان کے صوبے قندوز کی مسجد میں شیعہ نمازیوں میں کیا جانے والے خود کش حملہ تھا جس نے 150 نمازیوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا اور دسیوں کو زخمی بنا دیا۔
عالمی استعمار نے بھی متذکرہ طفلانہ فرمولے کو عملایا ہے اور یوں ابلیسی کھیل کھیلنے کے لئے پورے مشرق وسطیٰ کو کھیل کا میدان بنارکھا ہے اور جب کسی ملک پر چڑھ دو ڑنے کا خیال اسے آتا ہے وہ دہشت گردی کے جن کو بوتل سے نکال اْس ملک میں پھینک آتے ہیں۔ دہشت گردی عالمِ استعمار کا سب سے بڑا کارگر حربہ ہے جس کو وہ مقصد برآوری کے لئے ایک عرصے سے آزماتا آ رہا ہے۔