امریکی سفارتخانے ’جاسوسی کے گھونسلے‘ پر قبضہ کئے جانے کے بعد آپ کی سب سے پہلی فلم ’’واقعیت‘‘ منظر عام پر آتی ہے اور اسی فلم میں امریکہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے امریکہ سے اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔
امریکہ کے حکمرانوں کے نزدیک اسرائیل کا تحفظ بنیادی مسئلہ نہیں ہے، ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ کچھ اور ہے۔
اگر صہیونی تحریک کی بنیاد پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پوری تحریک اور اس کا فکر و فلسفہ انتہا پسندی، نسل پرستی اور تشدد پر مبنی ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی، دوسری اقوام پر غلبہ اس تحریک اور اس کے حامیوں کے دل ودماغ میں رچا بسا ہے۔
اس تحریک کا خیال ہے کہ صہیونیت سنہ 1947ء تک ایک انقلابی تحریک تھی جس نے بہت کچھ حاصل کیا؛ عبرانی زبان کو زندہ کیا، اور یہودی تارکین وطن کو "ارض موعود" میں پلٹ آئے اور خودمختار یہودی حکومت قائم کی۔
پروفیسر باگبی ایک انتہا پسند مسلمان ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ: "آخرکار ہم [مسلمان] کبھی بھی اس ملک [امریکہ] کے مکمل شہری نہیں بن سکتے کیونکہ کسی صورت میں بھی مکمل طور پر اس ملک کے قوانین اور عقائد و نظریات کے پابند نہیں ہوسکتے"۔
ایک تجزیے میں برطانوی اخبار نے امریکی معاشرے کے ارتقاء اور دنیا میں اس کے مقام کے زوال میں 9/11 کے کردار کا جائزہ لیا۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے۔
بیرک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسرائیل فوج میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق، ۵۰ فیصد افسر اپنے رشتہ داروں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ فوج میں خدمات انجام نہ دیں۔
ویکی لیکس نے فاش کیا کہ سعودیوں نے یہودی ریاست کے بدنام جاسوسی ادارے "موساد" کے ساتھ سلامتی امور کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر کے معاہدے کی تجویز دی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق، موساد سعودی خفیہ ادارے کے معلومات اکٹھی کرنے میں مدد اور ایران کے بارے میں مشورہ دے کر مدد اس ادارے کی مدد کرے گی۔