یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
امریکی سلطنت آج ایک قسم کی بیہودگی میں تبدیل ہوچکی ہے جو اپنے عوام سے بےاعتنائی کرتی ہے لیکن ملکی خزانے کو ایک غیر ممکن آرزؤوں کے حصول کر لئے ایسے دشمن کے خلاف خرچ کرتی ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ "امریکی سلطنت" کا دور بہت دشوار تھا"۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ھ کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔
یہی وہ شخص تھا جس نے برطانیہ پر دباؤ ڈالا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود و باش دی جائے ۔
اسرائیلی اخبار ’’ہاآرتض‘‘ کے مطابق جوہری توانائی کمیشن کے اراکین نے کہا ہے کہ اس وقت اسرائیل کے ایٹمی پلانٹس کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
بیرک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسرائیل فوج میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق، ۵۰ فیصد افسر اپنے رشتہ داروں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ فوج میں خدمات انجام نہ دیں۔
غزہ پٹی کی سرحد پر فلسطینیوں نے ایک بار پھر صیہونی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے ہيں۔
ہرٹزل کے تفکرات سے معرض وجود میں آنے والے طفیلیوں کی موت کی گھڑی قریب آئی ہے اور دنیا اسرائیل کے بغیر کے جغرافیے کی طرف رواں دواں ہے؛ مسلمان طاقتور بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اسلامی مزاحمتی حلقوں کے آگے قدم جمانے کی ہمت و سکت نہیں رکھتا۔
امام خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۹۱ کو فرمایا: “اسرائیل کا انجام نابودی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوئی سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ مشرقی بڑی طاقت (سوویت روس) اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی