صہیونیت کا ایک ابلیسی منصوبہ یہ ہے کہ آج دنیا کو جو انہوں نے بے حیائی، عریانی فحاشی کے جس موڑ پر لاکھڑا کر دیا ہے وہاں سے آگے لے جا کر بے حیائی اور بدکاری کو اتنا عام کر دیا جائے کہ انسان اور جانور میں تمیز مشکل ہو جائے اور لوگ جانوروں کی طرح سرراہ بدکاری اور بے حیائی کے کام کر رہے ہوں۔
بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو کر حیرت ہو گی کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں انہیں اپنی علیحدہ کوئی تنظیم قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی چونکہ ان کے اپنے آدمی خفیہ طور پر ان ملکوں میں اہم مناصب پر تعینات کروائے جا چکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ ہر کام کروا سکتے ہیں۔
انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دو گنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو 12 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔