پارلیمانی الیکشن کے خلاف اس عوامی احتجاج کی مختلف وجوہات ہیں۔ عوام کا سب سے بڑا اعتراض اس الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے طریقہ کار پر ہے۔ عوام پرامن احتجاج کو اپنا قانونی حق تصور کرتے ہیں، لہذا انہوں نے احتجاجی مظاہروں اور دھرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مظاہرین کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں کو ضروری تحفظ فراہم کرے۔
یہودیوں نے بنی اسماعیل کا تعاقب یعقوب علیہ السلام کے فورا بعد نہیں تو کم از کم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے کے بعد، ضرور شروع کیا اور یہ تعاقب ابتدائے اسلام میں مختلف لبادوں کے پیچھے جاری رہا اور رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد اس نے اپنا بھیس بدل دیا۔
اگر ہم کربلا سے اپنی روح کو متصل کر دیں تو یقینا ایک ہی مقام پر ہمیں یکجا وہ ساری چیزیں مل سکتی ہیں جنکی بنیاد پر ہم دنیا میں سربلندی کے ساتھ جی سکیں، اس لئے کربلا کی روح کی فریاد ہے ، ھیھات منا الذلہ ۔۔۔اور یہ اربعین امام حسین علیہ السلام اسی ھیھات منا الذلہ کی ایک ادنی تفسیر ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے اس مقام پر واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی ظالم حاکم حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو بیت المال کو ضائع کر رہا ہو تو اسکے مقابل کھڑا ہونا ہی حسینت ہے۔
اگر دوسرے ممالک اس سبق کو اچھی طرح سیکھتے تو وہ بھی تمام تر تباہیوں، سازشوں اور یلغاروں کا جم کر مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات حاصل کرتے۔
امام حسین علیہ السلام نے یہ درس عظیم اس امت کو دے دیا اور آپ کی شہادت اور کربلا کے جان سوز واقعے کے بعد نہ صرف پیروان اہل بیت اور امامت و ولایت کے معتقدین نے یہ درس سیکھ لیا بلکہ خوارج بھی، بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ معاشرہ جتنا آگے بڑھتا گیا حالات خراب تر ہوئے یہاں تک کہ 50 سال بعد، یہ معاشرہ دوران جاہلیت سے بھی بدتر ہؤا؛ یعنی انھوں نے اسلام کی ناقص اور ظاہری صورت کو اختیار کرلیا تھا لیکن اندر سے اس قدر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعلیمات سے دور ہوچکے تھے کہ سابقہ جاہلیت سے کئی گنا بڑی جاہلیت ان کے ہاں پلٹ آئی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ "بنی امیہ کی حکومت حرام ہے" اور "اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو"، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں۔
خدارا گستاخ صحابہ پر ایف آئی آر والے مسائل کو سلجھائیں، ذمہ دار افراد اس مسئلے پر ہرگز خاموش نہ رہیں۔ اگر ہر ایک کو گستاخ صحابہ کے کٹہرے میں لایا جائے تو کئی فرقے ایک دوسرے کو گستاخ قرار دیتے ہیں۔ شافعی تو معاویہ کے منکر ہیں اور جہنمی قرار دیتے ہیں، صحاح ستہ کی روایات سے معاویہ اور بنوامیہ کی توہین ہوتی ہے، پھر تکفیری کس وجہ سے گستاخ صحابہ کا نعرہ لگاتے ہیں؟ خدارا اس مسئلے کو علماء اور ادارے مل بیٹھ کر حل کریں ورنہ یہ معاملہ پاکستان جیسے گلستان کو اجاڑ دے گا۔