ایک صہیونی تجزیہ نگار نے ہاآرتض اخبار کو لکھے گئے اپنے مضمون میں کچھ دلائل پیش کر کے کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنی ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دئیے ہیں۔
قابض صہیونی ریاست کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں تاریخی فلسطینی قبرستان ’یوسفیہ‘ میں کھدائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں اس وقت کوئی لیڈر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امن عمل کی بحالی کا امکان موجود ہے۔
بالفور اعلامیہ حقیقت میں اس منظم سازش کا ایک حصہ تھا کہ جس کے تحت فلسطین پر صہیونی یہودی ریاست مسلط کر کے برطانیہ اور امریکا نے اپنے اور صہیونی سامراج کے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔
جیمی کارٹر اپنے مکالمات اور یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ انھوں نے کتاب "فلسطین؛ امن، نسل پرستی نہیں" (یا فلسطین، نسل پرستی نہیں، بلکہ امن) کو اپنے ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر تحریر کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ بہت سے یہودیوں اور امریکیوں کے لئے یہ سب قبول کرنا، ممکن نہ ہو۔ نیز وہ اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں بہت سی قدغنیں پائی جاتی ہیں اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں بحث اور اسرائیلی ریاست پر تنقید کا امکان نہیں پایا جاتا۔
ایک انٹرویو میں احمد عطون نے کہا کہ اسرائیل کا القدس میں تاریخی قبرستان ’یوسفیہ‘ کو یہودیانے پراصرار حقائق کو مسخ کرنے اور القدس کو یہودیانے کی سازشوں کا تسلسل ہے۔
افریقی خطے میں اسرائیلی ریاست کا نفوذ روکنے حوالے سے الجزائر میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کا عمل زیادہ دور تک نہیں جائے گا اور قابض دشمن خطے کے ممالک میں زیادہ عرصے تک نہیں جاسکے گا۔
پروفیسر آسٹن نے جس نظریئے کی وضاحت کی وہ ان تحقیقات کے ڈھانچے کی مشترکہ خصوصیت ہے جس کو تنقیدی نسلی نظریئے کے مطالعے کے طور درجہ بند کیا ہے اور وہ عرصہ دراز سے اس کی ترویج کر رہی ہیں۔ پروفیسر آسٹن نے وضاحت کی کہ "میں سنجیدگی سے اس ڈھانچے کی بنیاد کے طور پر، ثقافت پر زور دیتا ہوں، تا کہ آپ کے اختیارات اسی ثقافت کے اندر سے اگ کر پروان چڑھیں، نہ اس کے باہر سے"۔ قانون پر ثقافت کی بالادستی اور تقدم پر پروفیسر آسٹن کا اصرار اتنا شدید ہے کہ وہ دعوی کرتی ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو قانونی اختیارات کے متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔
اگر ریاست ہائے متحدہ ایک "معمولی" ملک ہوتا؛ اگر وہ دوسرے ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے لئے تیار ہوتا، تو شاید یہ قصہ کچھ مختلف ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو اس ناہنجار اور بدشکل مخلوق کے ساتھ زندگی گذارنا پڑ رہی ہے جس کو "بین الاقوامی" تعلقات کا نام دیا گیا ہے اور اس مخلوق کو امریکہ نے خلق کیا ہے۔