صہیونی تھنک ٹینک نے مزید لکھا: علاوہ ازیں کہ اسرائیل کو عینی اور عملی لحاظ سے اپنے اقدامات کے لئے اس امریکی منصوبہ بندی کا پورا ادراک کرکے، منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد اور دوستی اور اس کی حمایت میں سچا بھی ہو، پھر بھی یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ ملک مستقبل میں اپنے فوجی وسائل کو اس علاقے کے چیلنجوں - بالخصوص ایران کی پالیسیوں سے جنم والے چیلنجوں - سے نمٹنے پر صرف کرنا چاہے گا۔
افغان جنگ کی وجہ سے ہمیں روزانہ 30 کروڑ ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے تھے / ہزاروں فوجی تعینات کرکے امریکہ کی سلامتی کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا / ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا / میں صدر بنا تو طالبان آدھے افغانستان پر قابض ہوچکے تھے / افغانستان سے ذلت آمیز فرار کے بعد امریکی صدر نے اپنی نشری تقریر میں افغانستان سے شرمناک پسپائی کو "غیر معمولی مشن" قرار دیا!
افغانستان اور عراق سے امریکیوں کی تدریجی پسپائی کے پس منظر کو مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خواہ افواج، فوجی ساز و سامان یا مالی وسائل کی قلت کی وجہ سے سخت طاقت کی کمزوری، خواہ رائے عامہ اور ذرائع ابلاغ پر استوار نرم طاقت کی کمزوری، امریکی خارجہ پالیسی کی ہدف بندی کے مصادیق پر ضرور اثرانداز ہوگی اور وائٹ ہاؤس مستقبل میں اپنی توجہ، اپنے روایتی حلیفوں کی حفاظت پر مرکوز رکھے گا۔
امر مسلم یہ ہے کہ بڑا شیطان ہار گیا جبکہ افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء ایک بڑے شیطان کی شکست اور پسپائی کی انتہا نہیں، بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے ان کے بتدریج انخلاء کا آغاز ہے۔
کابل ہوائی اڈے سے آخری امریکی طیارے کے انخلاء کے بعد، امریکی انخلاء کو "افراتفری سے بھرپور خاتمہ" کا نام دیا۔ دریں اثناء ایک ویڈیو کلیپ بھی سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر نشر ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے میں جشن کا سماں ہے اور ہوائی فائرنگ کرکے امریکیوں کی پسپائی کا جشن منایا جارہا ہے۔
طالبان کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر بھی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوگا ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم بلاک جو استعماری منصوبہ بندی کا غلام ہے ،کس طرح طالبان کو تسلیم کرنے سے باز رہتاہے ۔کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک اگر علی الاعلان طالبان کے اقتدار کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر دنیا کے پاس انہیں تسلیم نہ کرنے کا کیا جواز ہوگا؟
پچاسی ارب ڈالر مالیت کا امریکی فوجی ساز و سامان طالبان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔
یہ جو اب ہم افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن (اس سے پہلے) کسی نے بھی جو بائیڈن کی طرح ایک المناک فوجی پسپائی کا انتظام نہیں کیا تھا اور "یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ہماری شرمساری کا سب سے بڑا واقعہ ہے"۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے تحریک طالبان کے سیاسی شعبے کے انچارج ملا عبدالغنی برادر کو ٹیلیفون کرکے انہیں امریکا کو شکست فاش دینے کی مبارک باد پیش کی ہے۔