خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر ایک امریکی اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ مارچ 2019 میں امریکہ نے شام کے ایک شہر پر فضائی حملے میں 60 سے زائد شہری خواتین اور بچوں کو ہلاک کر کے اس واقعے کو چھپا دیا تھا۔
امریکہ کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنا معیار کھو چکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کو کہ جس کے تحت امریکہ ہر دہشت گردی کے اقدام کی حمایت کرتا ہے، سخت مخالف کر رہے ہیں۔
یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران مغربی ایشیا میں محاذ مزاحمت نے اپنی لا زوال قوت کے ذریعے دہشت گردی اور دہشت گردوں، دہشت گردی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں لیکن اگلے مرحلے میں داعش کا نشانہ بننے والے ممالک میں مزاحمت کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان ممالک میں کلاسیکی افواج دہشت گردی کی ابتدائی شکلوں کے مقابلے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
عربی اور اسلامی دنیا میں داعشی سرگرمیوں کی حدود میں توسیع ڈیموکریٹوں کی نیابتی جنگوں (Proxy Wars) کے حوالے سے جانی پہچانی پالیسیوں کی یاد دہانی کرا رہی ہے اور یہ پالیسی ان ملکوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو اپنی سرزمین پر تناؤ اور تنازعات کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔
کرنا پڑا، امریکہ نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ویٹو کا پاور استعمال کر کے یا اقوام متحدہ کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر صہیونی ریاست دفاع کیا ہے۔
13 آبان مطابق با 4 نومبر کے موقع پر ایک سماجی تقریب کے جواب میں ہزاروں ایرانیوں نے "مرگ بر امریکہ اور مردہ باد اسرائیل" کے نعرے لگاتے ہوئے امریکی اور اسرائیلی پرچموں کو نذر آتش کیا۔
پروفیسر آسٹن نے جس نظریئے کی وضاحت کی وہ ان تحقیقات کے ڈھانچے کی مشترکہ خصوصیت ہے جس کو تنقیدی نسلی نظریئے کے مطالعے کے طور درجہ بند کیا ہے اور وہ عرصہ دراز سے اس کی ترویج کر رہی ہیں۔ پروفیسر آسٹن نے وضاحت کی کہ "میں سنجیدگی سے اس ڈھانچے کی بنیاد کے طور پر، ثقافت پر زور دیتا ہوں، تا کہ آپ کے اختیارات اسی ثقافت کے اندر سے اگ کر پروان چڑھیں، نہ اس کے باہر سے"۔ قانون پر ثقافت کی بالادستی اور تقدم پر پروفیسر آسٹن کا اصرار اتنا شدید ہے کہ وہ دعوی کرتی ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو قانونی اختیارات کے متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔
اگر ریاست ہائے متحدہ ایک "معمولی" ملک ہوتا؛ اگر وہ دوسرے ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے لئے تیار ہوتا، تو شاید یہ قصہ کچھ مختلف ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو اس ناہنجار اور بدشکل مخلوق کے ساتھ زندگی گذارنا پڑ رہی ہے جس کو "بین الاقوامی" تعلقات کا نام دیا گیا ہے اور اس مخلوق کو امریکہ نے خلق کیا ہے۔