یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صہیونی بلاک نے ترکی کے تعاون سے آذربائیجان کے صدر الہام علی اف کو خطے میں اپنے پست اہداف کے حصول کی خاطر آگے لگا رکھا ہے۔ اس سازش کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک نئے سکیورٹی بحران سے روبرو کرنا ہے۔
ہندوستان کے رہنماؤں جیسے گاندھی جی اور نہرو جی نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا اگر چہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا تھا۔
صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کا کہنا ہے کہ تل ابیب کے پاس ایران کی ایٹمی توانائی کو ختم کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
اٹزیون نے اس مکالمے میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے اور ایران کی طرف سے ایٹم بم کے حصول کی کوششوں اور تل ابیب پر ایٹمی حملے جیسے موضوعات کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ سب محض ایک سیاسی نعرہ ہے، اور حتی اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہو بھی، وہ اسے استعمال نہیں کرے گا۔
“ایران کے ساتھ جنگ ایک ایسی چیز ہے جسے میں تصور ہی نہیں کرنا چاہتا”، یہ جملہ “ایرن اٹزیون” (Eran Etzion) کا ہے جو برسوں تک یہودی ریاست کی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ میں کام کرتے رہے ہیں۔
فخری زادہ پاسداران انقلاب کے میزائل پروگرام کی ترقی کے نظام کے انچارج اور ایران کے جوہری پروگرام کو شروع کرنے والی شخصیات میں سے ایک تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور صیہونی وزیر اعظم نفتالی بنٹ کی جانب سے ایران کو دھمکی دیئے جانے پر ایران کے ایک سینئر عہدیدار نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ ہم ایران کے خلاف علاقائی جنگ کی طرف جا رہے ہیں اور ہمیں اس جنگ کی لگام پہلے ہی آگے بڑھ کراپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے۔
ہندوستان بھی اسرائیلی مفاد پرستی اور دوستی کے پس پردہ اغراض و مقاصد سے بخوبی واقف ہے ۔مگر اسکی خارجہ پالیسی ابھی پوری طرح اسرائیل کی حمایت نہیں کرتی ہے ۔اسکے نقصانات سے ہندوستان اچھی طرح واقف ہے لہذا وہ اسرائیل نوازی کے باوجود ایران سے براہ راست دشمنی نہیں کرنا چاہتا