غاصب ریاست سائنس اور ٹیکنالوجی پر استوار صنعتوں، سائنسی تحقیق کے نجی اور جامعاتی مراکز کی حمایت کرتی ہے اور یہ بھی معاشی ترقی میں مؤثر ہے۔ یہ سرکاری حمایت اور امداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس ریاست میں مجموعی ملکی پیداوار میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات کا حصہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
یہ بات ناامید کرنے والی ہے کہ عرب خواتین کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مقابلے میں، قدیم سامراجیوں کے مقابلے میں اور اپنے مَردوں کے مقابلے میں طاقتور بننے کوشش کرنا پڑ رہی ہے، اور حالات اس قدر دشوار ہوچکے ہیں کہ عرب خواتین کو جنگ میں شرکت کرنا پڑ رہی ہے؛ اور یہ مطلق ناامیدی کی علامت ہے"۔
غرب اردن کے شہر جنین میں صیہونی فوجیوں کی فائرنگ میں شہید ہونے والے فلسطینوں کی تعداد چار ہوگئی ہے۔
البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہودی سینما کا آخرالزمانی تفکر بظاہر دانیال نبی(ع) کی کتاب، ارمیاء اور حزقی ایل کی کتابوں نیز آخرالزمان کے حوالے سے یوحنا کے مکاشفات سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے تصورات کے سانچے علامتی ہیں چنانچہ ان کی گوناگوں تفسیریں اور تاویلیں ممکن ہیں۔
میں یہ کہوں گا کہ صہیونیوں نے بنیادی طور پر ہی یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک بنایا اور اس کا نام اسرائیل رکھا۔
آج ایک طرف سے طولانی اور طاقت فرسا جنگوں اور دوسری طرف سے حکومت کی بے لیاقتی، سماجی مشکلات اور نسل پرستی جیسے گہرے مسائل اس ریاست کی معیشتی صورت حال کو روز بروز کمزور کر رہے ہیں۔
میئر کئی سال پولینڈ میں “ایک مختلف یہودی آواز” نامی تنظیم کے سربراہ رہے اور ۲۰۰۳ میں انہوں نے “یہودیت کا خاتمہ” نامی ایک کتاب لکھی اور اس میں انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا کہ اسرائیل نے ہولوکاسٹ کا ڈرامہ صرف فلسطینیوں پر جاری اپنے جرائم کی توجیہ کے لئے رچایا ہے۔
اس کتاب میں واضح طور پر اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی سیاست مداروں نے عراق اور افغانستان میں ہزاروں لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جبکہ صہیونی چھوٹی سی منظم لابی کے سامنے انکی گھگھی بندھی رہتی ہے اور انکی حقارت کی انتہا نہیں ۔
برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکانی کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل سے کام لے رہی تھی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک تیس سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہو گئے کہ فلسطین میں ان کی “قومی ریاست” قائم کر دیں۔