اگر ریاست ہائے متحدہ ایک "معمولی" ملک ہوتا؛ اگر وہ دوسرے ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے لئے تیار ہوتا، تو شاید یہ قصہ کچھ مختلف ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو اس ناہنجار اور بدشکل مخلوق کے ساتھ زندگی گذارنا پڑ رہی ہے جس کو "بین الاقوامی" تعلقات کا نام دیا گیا ہے اور اس مخلوق کو امریکہ نے خلق کیا ہے۔
پروفیسر ڈوہرن نے اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: "ہم نے جنگ کا بھی مقابلہ کیا اور نسل پرستی کا بھی؛ نیز ہم نے یہ بھی سیکھا کہ صرف امریکہ میں کچھ افراد کی زندگی ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ تمام انسانوں کی زندگی ایک سطح پر قابل قدر اور اہم ہے"۔
’شوقی افندی‘ کے بقول صہیونیت کی حاکمیت کے دوران بہائی اوقاف کے نام سے فلسطین میں ایک شاخ قائم کی گئی کہ جس سے ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ بہائیوں کے مقدس مقام کے نام پر دنیا بھر سے جو کچھ فلسطین آتا تھا وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس سے معاف ہوتا تھا۔
برطانوی وزیر دفاع نے افغانستان سے امریکہ کی خفت آمیز اور شوریدہ حال پسپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متنازعہ موقف اپنایا اور اعلان کیا کہ امریکہ مزید ایک بڑی عالمی طاقت نہیں ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی میں مہارت رکھنے والے بینارٹ نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کو چھپانا بند کریں اور امریکی عوام اور دنیا کے سامنے اس کی سچائی کا اعلان کریں۔
ایسے حالات میں کہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن عوام لیبرالیزم سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں صہیونی تنظیمیں ان کے معیشتی سرمایے کو بڑی آسانی کے ساتھ اسرائیل منتقل کرنے میں کوشاں ہیں۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے کون تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی سیاسی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔