شاید سوال ہو کہ انکے غیر قانونی کاموں کے باوجود قانونی مراکز انکے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے ،تو اسکا جواب یہ ہے کہ جب انہیں اپنے کاموں میں کوئی قانونی مشکل نظر آتی ہے اور وہ قانون کے شکنجے میں خود کو گھرا دیکھتے ہیں تو بڑی بڑی رشوتیں دے کر نہ صرف یہ پلیس سے جان چھڑاتے ہیں بلکہ دیہاتوں کی پوری پوری پنچایت اور پورے دیہات کو بھی خاموش کر دیتے ہیں۔
اب بھی پولیس نے سردیاں شروع ہونے سے پہلے کشمیری عوام پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے مذکورہ 4 کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے، جو بیگناہ تھے، ایک ڈاکٹر تھا، دوسرا کلینک پر ملازمت کرتا تھا، ایک دکاندار تھا، چوتھے کو پاکستانی قرار دیدیا گیا۔ آخر بھارت سرکار کب تک جھوٹ کا سہارا لے کر بے گناہ کشمیریوں کو موت کی وادی میں دھکیلتی رہے گی؟؟
ہندوستان میں سیاسی روّیے اور سماجی قدریں تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہیں ۔اس برقی تبدیلی پر ملت کے دانشوروں اور قوم کے رہنمائوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر شکاری کے آنے کا انتظار نہیں کرسکتے ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے یہ ہمارا ملک ہے ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کچھ سر پھرے اس وطن کی عزت و آبرو سے کھیلنا چاہیں تو ہمیں انکا مقابلہ کرنا ہوگا ، یہ جو تریپورہ میں مساجد جلائی گئیں ہیں یہ محض مسجدیں نہیں تھیں جنہیں نذر آتش کیا گیا ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوریت کو آگ لگانے کی کوشش کی ہے۔
بر سر اقتدار جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کی زمام ہمیشہ کسی ایک کے ہاتھوں میں نہیں رہتی ۔وقت بدلتاہے ۔حالات پلٹا کھاتے ہیں ۔حکومتیں گردش زمانہ کی نذر ہوجاتی ہیں ۔مستقبل میں سیاست کی زمام کس کے ہاتھوں میں ہو یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔اقلیتی طبقے کو ہراساں کرنا اور ان کے جوانوں کو فرضی معاملات میں گرفتار کرنا بند کیا جائے ۔مسلمان اس ملک کے عزت دار شہری ہیں ۔اور یہ حق ان سے کوئی تنظیم اور حکومت نہیں چھین سکتی ۔ہاں کچھ وقت کے لیے انہیں کمزور اور خوف زدہ ضرور کیا جاسکتاہے ۔اور بس!
مغلیہ سلسلے کے چھٹے سلطان محی الدین محمد اورنگزیب کے دور میں ہندوستان کے جنوب اور مغرب میں وسیع بغاوتوں نے سر اٹھایا اور ان بغاوتوں نے بعد کی دہائیوں میں برصغیر کی شکست و ریخت اور آخرکار برطانوی سامراج کے تسلط کے لئے ماحول فراہم کیا۔
ہندوستان کے رہنماؤں جیسے گاندھی جی اور نہرو جی نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا اگر چہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا تھا۔
میری نظر میں ہندوستان کے اسلامی سماج کی اہم ترین ذمہ داری، خودشناسی ہے، معرفت ہے اپنی نسبت اور اپنے دشمن کی نسبت، ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ تاریخ کے اس دور میں وہ کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں اپنے دین کی ترویج کے لیے، اپنے اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے اور اپنے مقام و منزلت کو پائیدار رکھنے کے لیے۔
المختصر !اترپردیش میں مذہبی منافرت اور سیاسی نفاق کا کھیل شروع ہوچکاہے ۔بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ’تقسیم کی سیاست‘ کے بغیر اترپردیش میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔اس لیے علی گڑھ کی سرزمین سےنفرت کا کھیل شروع ہوچکاہے