یہ نظریاتی تناقضات اور آپسی ٹکراو اس وقت میدان عمل میں آگے کے راستہ کو اپنے لئیے بند پاتے ہیں جب صہیونی حکومت کے نسل پرستانہ و قوم پرستانہ طبقاتی سلسلوں کا سامنا یہودیوں کے قوم پرستانہ کلچر سے اشکنازیوں ، سفاردیوں اور آفریقی یہودیوں نیز فلسطینی کی سرزمینوں پر رہایش پذیر اعراب سے ہوتا ہے ۔
اس کتاب کے پہلے حصے کا نام ’’بنی اسرائیل سے اسرائیل تک‘‘ ہے اس دوران کے یہودیوں سے متعلق تمام باتیں جو آپ جاننا چاہیں کتاب کے اس حصے میں موجود ہیں۔
سورہ اسراء جس کا دوسرا نام ہی بنی اسرائیل ہے قرآن کریم کے حیرت انگیز سوروں میں سے ایک ہے اور اس میں بہت ہی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔
قانون تاکنون وضعیت استخدامی معلمان را تا سال 92 تعیین کرده و اجازه داده از ظرفیت های سرباز معلم و معلمان حق التدریسی استفاده کند که بار دیگر قانون و مجلس این مسائل را تبدیل به تعهد برای وزارت آموزش و پرورش کرده است.
’’اوزی رابی‘‘ اس سینٹر کے سربراہ ہیں وہ تل ابیب یونیورسٹی میں مطالعات ایران کے پروفیسر تھے۔ ان کی تحقیقات مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور معاشروں کے حالات، ایران اور عرب ریاستوں کے تعلقات، مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر، اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلافی مسائل جیسے موضوعات سے مخصوص ہیں۔
مروی ہے کہ حضرت محمد(ص) کی ولادت کے بعد، ایک روز ایک یہودی عالم دارالندوہ میں حاضر ہوا اور حاضرین سے پوچھا کہ “کیا آج رات تمہارے ہاں کسی فرزند کی ولادت ہوئی ہے؟”، سب نے نفی میں جواب دیا۔ کہنے لگا کہ اگر نہیں ہوئی ہے تو فلسطین میں ہوئی ہوگی، ایک لڑکا جس کا نام “احمد” ہے۔۔۔
ذبح اسماعیل(ع) کا واقعہ گذشتہ اور موجودہ حالات کی شناخت کے سلسلے کا کلیدی نکتہ ہے لیکن یہود نے اس الہی منصوبے کو منحرف کرکے ذبح اسماعیل کو ذبح اسحاق(ع) کے عنوان سے پیش کیا۔
آج وہابیت اور تکفیریت کے عمائدین جانتے ہوئے اور عام وہابی اور تکفیری دہشت گرد نہ جانتے ہوئے، اسلام کے پیکر پر مہلک وار کررہے ہیں، اور ان کے لئے مسلمانوں کا مفاد نہ صرف عزیز نہیں ہے بلکہ یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا، اپنا مشن سمجھتے ہیں۔