آئیں، صیہونی ظلم و بربریت کیخلاف مظلوم فلسطینیوں کی آواز بن جائیں
فاران: ان دنوں پوری دنیا مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے ظلم و بربریت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت، جو لاتعداد بچوں کی قاتل حکومت ہے، ابھی تک 900 معصوم فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں 260 بچے اور 230 خواتین بھی شامل ہیں، جبکہ اس ظلم و بربریت کے نتیجے میں زخمی ہو جانے والوں کی تعداد 2900 سے تجاوز کر چکی ہے۔ جنرل موشے دایان کا مشہور جملہ ہے کہ اسرائیل کو ایک پاگل کتے کی مانند ہونا چاہیے، جسے چھیڑنا بہت خطرناک ہو۔ آج ایک ناامیدی کی سی کیفیت محسوس ہو رہی ہے۔ بہرحال ہماری مسلح افواج دنیا کی تیسویں مضبوط ترین فوج نہیں ہے بلکہ ہماری فوج اس فہرست میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر براجمان ہے۔ چنانچہ ہمیں اس ظلم و بربریت کے سامنے بند باندھنے کی کوئی تدبیر سوچنی چاہیے۔
1969ء میں اسرائیلی وزیراعظم گلڈا مایر نے ایک مشہور جملہ کہا تھا کہ فلسطینی قوم نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی اور نہ آنے والے زمانے میں ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے افکار آج بھی اسرائیل میں عمومی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب گلڈاماید کے نزدیک فلسطین نامی کوئی حقیقت وجود ہی نہیں رکھتی تو وہ آئے دن کس سے الجھتے رہتے ہیں؟ اس کے بیان میں ایک نکتہ یہ تھا کہ جب عربی زبان کے حروف تہجی میں ’پ‘ نام کا کوئی حرف نہیں ہے تو فلسطینی قوم کا وجود کیسے ممکن ہے؟ (عربی زبان میں پ کی جگہ ف استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عربی میں فلسطین تلفظ کیا جاتا ہے۔)
طوفان الاقصی نامی آپریشن درحقیقت مختلف مزاحمتی گروہوں اور فلسطین کی مظلوم ملت کا اپنے ناقابل انکار و ناقابل تردید حقوق کی خاطر ایک خودساختہ اقدام ہے۔ یہ صیہونیوں کے جنگ بھڑکا دینے والے، اشتعال انگیز اور جارحانہ رویئے اور خاص طور پر اس غاصب حکومت کے وزیراعظم کی احمقانہ راہ و روش کے مقابلے میں فلسطینیوں کا فطری ردعمل تھا۔ یہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے کہ تشدد و مار دھاڑ کرکے کسی قوم کو تدریجاً اس کی سرزمین، علاقے اور گھروں سے محروم کر دیا جائے۔ چنانچہ آج فلسطین کے تقریبا 30 لاکھ لوگ ایک چھوٹے سے شہر میں محصور کر دیئے اور وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں، جبکہ یہ ظلم روا رکھنے والے ایک محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تمام بین الاقوامی قوانین و ضوابط، فلسطینی قوم کو صیہونی حکومت کے اس قبضے، جارحیت، آئے دن کی ظلم و بربریت اور منظم دہشتگردی کے خلاف اپنی سرزمین و مقدسات کے دفاع کو ان کا فطری و جائز حق قرار دیتے ہیں۔
ان دنوں غزہ اور دوسرے مقبوضہ علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری اس قابض، مطلق العنان حکومت پر عائد ہوتی ہے جو انتہائی درجے کے نسلی و مذہبی نظریات اور رجحانات رکھتی ہے اور ہمیشہ سے تمام بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اقوام متحدہ و دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی قراردادوں و انتباہات کو رد کرتی چلی آئی ہے۔ ایک طرف گذشتہ چند مہینوں سے اسلامی مقدسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے اور خود مسلمانوں کے قبلہِ اول پر بھی پسند صیہونی قابض ہیں تو دوسری طرف صیہونی حکومت کی قتل و غارت گری اور فلسطین کی مظلوم قوم بالخصوص خواتین، بچوں اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر ظلم و ستم بھی جاری و ساری ہے، چنانچہ اس ظلم و بربریت اور عالمی برادری اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی خاموشی نے فلسطینی قوم کے پاس صرف یہی راستہ چھوڑا ہے کہ وہ اپنی موروثی طاقت کے ذریعے صیہونی جارحیت کا مقابلہ کریں۔ صیہونی حکومت کا یہ دہرا معیار انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
جمہوری اسلامی ایران نے ہمیشہ فلسطینی قوم کے موروثی و قانونی حقوق کی تائید کی ہے اور انہیں پچھلے 75 سال سے جاری ظلم و بربریت کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کا حق دیا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے: ’’صیہونی حکومت اور ان کے حامی پچھلے دو تین دن سے ایک انتہائی مضحکہ خیز راگ الاپ رہے ہیں اور وہ یہ کہ ان مزاحمتی تحریکوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ ایسا سوچنا غلط ہے۔ البتہ ہم فلسطین کا دفاع کرتے ہیں اور فلسطینی جوانوں اور ان اقدامات کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے ہاتھ چومتے ہیں لیکن بہرحال یہ فلسطینی قوم کی اپنی سعی و کوشش سے ہی ممکن ہوا ہے۔‘‘ ایران موجودہ سنگین حالات کی تمام تر ذمہ داری قابض اسرائیلی حکومت اور ان کے حامیوں پر عائد کرتا ہے اور اسے فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے مسلسل ظلم و ستم کا شاخصانہ قرار دیتا ہے۔
ایران تمام مسلم ممالک کو وہ مسجد الاقصیٰ اور فلسطینیوں کے دفاع کیلئے دعوت دیتا ہے۔ اس سلسلے میں جمہوری اسلامی ایران کے اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس کی میزبانی کی تجویز بھی پیش کی ہے، تاکہ مسلم ممالک کے سربراہان باہمی تبادلہ خیال کر سکیں اور اس نازک صورتحال میں صیہونی حکومت کے بین الاقوامی جرائم کے خلاف کوئی مضبوط و قطعی لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ صیہونیوں کی کوشش ہے کہ اپنے اور مغربی میڈیا کی طاقت سے مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم ظاہر کرے تاکہ دنیا میں رائے عامہ کو منحرف کر سکے۔ ان دنوں جبکہ تمام مسلمان رسول خداﷺ کے ایام ولادت کے حوالے سے تقریبات و محافل کا انعقاد کر رہے ہیں، تو یقیناً مناسب رہے گا کہ ہم ان ایام میں فلسطین کے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو بھی یاد رکھیں اور دنیا کے ہر کونے میں فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہم قرآن کریم کے بیان کردہ اس الٰہی وعدے پر یقین رکھتے ہیں کہ آخرکار فتح مظلوموں کی ہی ہوگی اور فلسطینی عوام کی فتح اور بیت المقدس کی آزادی کے لمحات انتہائی قریب ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
حسن نوریان
قونصل جنرل آف جمہوری اسلامی ایران، کراچی
تبصرہ کریں