فاران تجزیاتی ویب سائٹ: دنیا کے گوشہ و کنار سے مسلمان حج کے لئیے مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں توحید پرستوں کا ایک ہجوم سرزمین وحی پر نظر آ رہا ہے یہ ایک ایسی اجتماعی عبادت ہے جس کی نظیر نہیں ۔یوں تو یہ ایک عبادت ہے لیکن اس کے گوناگوں پہلو ہیں ۔
ذیل میں ہم بہت مختصر طور پر اسکے کچھ پہلووں کی طرف روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے
جن حج کی حکمت کے ساتھ اسکا فلسفہ بھی واضح ہوگا ۔
اخلاقی پہلو:
حج کا سب سے اہم فلسفہ یہ ہے کہ یہ انسان کے اندر ایک اخلاقی انقلاب پیدا کرتا ہے۔ “احرام” کے مناسک انسان کو مادی وابستگیوں، ظاہری امتیازات اور رنگ برنگے لباسوں اور زیورات سے بالکل الگ کر دیتے ہیں اور جب محرم کی حیثیت سے لذتوں کی حرمت اور خودسازی کی ذمہ داریوں میں مشغول ہوتا ہے، تو یہ اسے مادی دنیا سے جدا کرکے نور، روحانیت اور صفائے باطن کی دنیا میں داخل کر دیتا ہے۔ ایسے افراد جو عام حالات میں جھوٹی عزتوں، عہدوں اور تمغوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں، وہ ایک دم سے ہلکے، پرسکون اور آزاد ہو جاتے ہیں۔
پھر حج کے باقی مناسک ایک کے بعد ایک انجام پاتے ہیں، ایسے مناسک جو انسان کے روحانی تعلق کو لمحہ بہ لمحہ اپنے خدا سے مضبوط اور اس کا رابطہ گہرا کرتے جاتے ہیں۔ یہ انسان کو اس کے ماضی کی تاریکی اور گناہوں سے کاٹ کر ایک روشن، پاکیزہ اور نورانی مستقبل سے جوڑنے کا سبب ہیں۔
خاص طور پر یہ بات قابل غور ہے کہ حج کی رسومات ہر قدم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کی یاد دلاتی ہیں، ان کی قربانیوں، مجاہدانہ کوششوں اور ایثار کو ہر لمحہ انسان کے سامنے زندہ کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی قابل توجہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین، بالخصوص مسجد الحرام، خانہ کعبہ اور طواف کی جگہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابتدائی دور کے مسلمانوں کی قربانیوں کی یادگار ہیں، یہ سب چیزیں اس اخلاقی انقلاب کو اور زیادہ گہرا کر دیتی ہیں۔ یہاں انسان ہر گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام اور دیگر عظیم پیشواؤں کے چہرے دیکھتا ہے اور ان کی حماسی آوازوں کو سنتا ہے۔
یقیناً یہ تمام عوامل مل کر ایسے دلوں میں ایک اخلاقی انقلاب برپا کرتے ہیں جو اس کے لیے آمادہ ہوں، اور یہ انقلاب انسان کی زندگی کے صفحے کو پلٹ کر ایک نیا روشن باب شروع کرتا ہے، جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اسی وجہ سے اسلامی روایات میں ہم پڑھتے ہیں: “جو شخص حج کو مکمل طور پر ادا کرے، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔” (بحار الانوار، جلد 99، صفحہ 26)
ایک نیا جنم
یقیناً حج مسلمانوں کے لیے ایک دوسرا جنم ہے، ایسا جنم جو ایک نئی انسانی زندگی کی شروعات ہے۔
البتہ یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ برکتیں اور اثرات ان لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو حج کے صرف ظاہری پہلو پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے باطنی پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اور نہ ہی ان لوگوں کے لیے جو حج کو تفریح، سیر و سیاحت یا ریاکاری اور دنیاوی وسائل حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں، اور روحِ حج سے بالکل ناواقف رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہی کچھ ملتا ہے جو انہوں نے طلب کیا ہے۔
حج کا سیاسی پہلو:
ایک بزرگ فقیہ کے بقول، حج کی رسومات ایک طرف جہاں سب سے خالص اور گہری عبادات پیش کرتی ہیں، وہیں یہ اسلام کے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کا بھی مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔
عبادت کی روح اللہ کی طرف توجہ ہے، اور سیاست کی روح خلقِ خدا کی طرف توجہ۔ یہ دونوں روحیں حج میں اس طرح ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں جیسے کپڑے کے تار و پود۔
حج اور اتحاد
حج مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔
حج قومی تعصبات، نسل پرستی اور جغرافیائی سرحدوں میں محدود ہونے کے خلاف جدوجہد کا ذریعہ ہے۔
حج ان ظالمانہ نظاموں کی طرف سے عائد کردہ سنسرشپ کو توڑنے اور ظلم و ستم کی جابرانہ فضا کو ختم کرنے کا وسیلہ ہے، جو اسلامی ممالک پر مسلط ہے۔
حج اسلامی ممالک کی سیاسی خبریں ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہے، اور غلامی کی استعماری زنجیروں کو توڑنے اور مسلمانوں کو آزاد کرنے کا مؤثر ذریعہ بھی ۔
اسی وجہ سے جب ظالم حکمران جیسے بنی امیہ اور بنی عباس مقدس اسلامی سرزمینوں پر حکومت کرتے تھے اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے رابطے پر نگرانی رکھتے تھے تاکہ ہر آزادی کی تحریک کو دبایا جا سکے، تو ان دنوں میں حج کا موسم آزادی کی ایک کھڑکی بن جاتا تھا، جس کے ذریعے امتِ مسلمہ کے مختلف طبقات ایک دوسرے سے رابطہ کرتے اور سیاسی مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔
اسی بناء پر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام جب فرائض و عبادات کی حکمت بیان کرتے ہیں تو حج کے بارے میں فرماتے ہیں: “خدا نے حج کے مناسک کو اسلام کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے مقرر فرمایا۔” (نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر 252)
یہی وجہ ہے کہ ایک معروف غیرملکی سیاستدان نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا:
“افسوس مسلمانوں پر اگر وہ حج کے مفہوم کو نہ سمجھیں، اور افسوس ان کے دشمنوں پر اگر وہ حج کے مفہوم کو سمجھ لیں!”
حتیٰ کہ اسلامی روایات میں حج کو کمزور افراد کا جہاد قرار دیا گیا ہے، ایسا جہاد جس میں بوڑھے مرد و عورتیں بھی شرکت کر کے امتِ مسلمہ کی شان و شوکت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، اور بیت اللہ کے گرد نماز گزاروں کے حلقوں، وحدت کی صداؤں اور تکبیر کی آوازوں کے ذریعے دشمنانِ اسلام کو لرزا سکتے ہیں۔
حج کا ثقافتی پہلو:
ایامِ حج میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے درمیان روابط، ثقافتی تبادلے اور افکار کی منتقلی کے لیے مؤثرترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ خصوصاً اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حج کا شاندار اجتماع دنیا بھر کے تمام مسلم طبقات کا قدرتی اور حقیقی نمائندہ ہے، کیونکہ خانۂ خدا کی زیارت کے لیے جانے والے افراد کے انتخاب میں کوئی مصنوعی معیار مؤثر نہیں ہوتا۔ زائرینِ کعبہ تمام گروہوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن سے مسلمان دنیا بھر میں بولتے ہیں، اور یہ سب وہاں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔
لہٰذا اسلامی روایات میں ہم پڑھتے ہیں کہ حج کے فوائد میں سے ایک فائدہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبریں اور آثار پوری اسلامی دنیا میں پھیلانا ہے۔
ہشام بن حکم جو امام صادق علیہ السلام کے فاضل و دانشمند اصحاب میں سے ہیں، بیان کرتے ہیں:
میں نے امام علیہ السلام سے حج اور طوافِ کعبہ کی حکمت کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ نے ان بندوں کو پیدا کیا اور ان کے دینی و دنیوی مفاد کے لیے کچھ احکامات مقرر فرمائے، جن میں سے ایک حکم مشرق و مغرب کے لوگوں کا حج کے ذریعے اجتماع ہے، تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو پہچان سکیں، ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوں، اور ہر قوم و قبیلہ اپنے تجارتی وسائل ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کر سکے… رسول اللہ کے آثار اور ان کی خبریں پہچانی جائیں، لوگ ان کو یاد رکھیں اور وہ کبھی فراموش نہ ہوں۔”
(وسائل الشیعہ، جلد ۸، صفحہ ۹)
اسی لیے ان ادوار میں جب ظالم خلفا اور جابر سلاطین مسلمانوں کو ان احکام کے پھیلانے کی اجازت نہیں دیتے تھے، تو مسلمان حج کے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے، ائمۂ ہدیٰ اور بڑے دینی علما سے رابطہ کرتے، اور اسلامی قوانین اور سنتِ نبوی کے پردے ہٹا دیتے تھے۔
دوسری طرف، حج ایک عظیم ثقافتی کانفرنس میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے، جہاں دنیا بھر کے اسلامی دانشور ایامِ حج میں مکہ مکرمہ میں جمع ہو کر اپنے خیالات، تجربات اور تخلیقات کو دوسروں کے سامنے پیش کریں۔
اصل میں، مسلمانوں کی ایک بڑی بدبختی یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی جغرافیائی سرحدیں ان کے درمیان ثقافتی جدائی کا سبب بن جائیں، اور ہر ملک کے مسلمان صرف اپنے ملک کے بارے میں سوچیں۔ اس صورت میں، متحدہ اسلامی معاشرہ ٹکڑوں میں بٹ کر ختم ہو جائے گا۔ جبکہ حج اس المناک انجام کو روک سکتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام، ہشام بن حکم کی اسی روایت کے آخر میں کتنی خوبصورت بات فرماتے ہیں:
“اگر ہر قوم و ملت صرف اپنے ہی ملک اور علاقے کی بات کرے اور صرف انہی مسائل پر غور کرے جو ان کے اندر ہیں، تو وہ سب تباہ ہو جائیں گے، ان کے ملک ویران ہو جائیں گے، ان کے مفادات زائل ہو جائیں گے، اور حقیقی خبریں پردے کے پیچھے چلی جائیں گی۔”
(ایضا)
حج کا اقتصادی پہلو:
بعض لوگوں کے برخلاف جو یہ سمجھتے ہیں کہ حج جیسے عظیم اجتماع سے اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنا روحِ حج کے خلاف ہے، اسلامی روایات کے مطابق یہ عمل نہ صرف حج کی روح کے منافی نہیں، بلکہ خود حج کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بھی ہے۔
اس میں کیا حرج ہے کہ مسلمان اس عظیم اجتماع میں ایک اسلامی مشترکہ منڈی (مارکیٹ) کی بنیاد رکھیں، اور ایسی تجارتی راہیں ہموار کریں جن کے ذریعے نہ ان کے منافع دشمنوں کی جیب میں جائیں اور نہ ہی ان کا اقتصادی نظام بیگانوں کا محتاج ہو؟ یہ دنیا پرستی نہیں، بلکہ عین عبادت اور جہاد ہے۔
اسی لیے روایتِ ہشام بن حکم میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فلسفۂ حج بیان کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا کہ حج کے اہداف میں سے ایک، مسلمانوں کی تجارت کو تقویت دینا اور اقتصادی روابط کو سہل بنانا ہے۔
ایک اور حدیث میں، اسی امام علیہ السلام سورۂ بقرہ کی آیت “لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ” (بقرہ: 198) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“اس آیت سے مراد رزق کا حاصل کرنا ہے، یعنی جب انسان احرام سے باہر آ جائے اور مناسکِ حج ادا کر لے، تو ایامِ حج میں خرید و فروخت کرے۔ (یہ کام نہ صرف گناہ نہیں بلکہ باعثِ ثواب ہے)”
(تفسیر المیزان، جلد 2، صفحہ 86)
مختصر یہ کہ اگر اس عظیم عبادت سے صحیح اور مکمل فائدہ اٹھایا جائے، اور خانۂ خدا کے زائرین ان بابرکت دنوں میں جب وہ اس مقدس سرزمین میں موجود ہوتے ہیں، اپنے دلوں کو آمادہ کر کے مختلف سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی کانفرنسوں کے ذریعے اسلامی معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کریں، تو یہ عبادت ہر پہلو سے مشکل کشا بن سکتی ہے۔
شاید اسی لیے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جب تک خانۂ کعبہ قائم ہے، اسلام بھی قائم ہے۔”
(وسائل الشیعہ، جلد 8، صفحہ 14)
(تفسیر نمونه، جلد 14، صفحہ 76)
غرض یہ کہ حج محض چند ایک اخلاقی و سیاسی پہلووں کی حامل عبادت نہیں یہ ایک خود سازی کا عظیم کارخانہ ہے تربیت نفس کا بڑا میدان ہے۔
حج کا سفر درحقیقت ایک عظیم ہجرت، ایک الٰہی سفر، اور ایک وسیع میدانِ خودسازی و جہادِ اکبر ہے۔
مناسکِ حج دراصل ایسی عبادت کو ظاہر کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم، ان کے بیٹے حضرت اسماعیل اور ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ کی مجاہدانہ یادگاروں سے گہری طرح جُڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم اسرارِ حج کے مطالعے میں اس نکتہ کو نظرانداز کریں تو بہت سے مناسک بے معنی معما کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس معما کی کنجی ان کی یاد میں مضمر ہے۔
جب ہم قربان گاہ، یعنی میدانِ منیٰ میں آتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کثیر قربانیاں کس لیے؟ کیا جانور ذبح کرنا عبادت کا حصہ ہو سکتا ہے؟
لیکن جب ہمیں حضرت ابراہیم کی وہ قربانی یاد آتی ہے کہ جس میں انہوں نے اپنے سب سے عزیز، سب سے قیمتی فرزند کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا ارادہ کیا، تو یہ عمل ہمیں سمجھ میں آتا ہے۔ اس کے بعد یہ قربانی، منیٰ میں ایک سنت کی شکل اختیار کر گئی۔
قربانی کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم راہِ معبود میں سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہیں۔ یہ دل کو غیر اللہ سے خالی کرنے کا مظہر ہے۔ جب ہم اس قربانی میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے معنوی تصورات اور جذبۂ تسلیم و رضا کو محسوس کرتے ہیں، تب یہ عمل تربیتی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔
جب ہم جمرات کی طرف جاتے ہیں اور انہیں مخصوص طریقے سے سات کنکریاں مارنے کا عمل انجام دیتے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بےجان ستونوں پر پتھر مارنے کا کیا مطلب ہے؟
لیکن جب ہمیں یاد آتا ہے کہ یہ عمل حضرت ابراہیم کی شیطان سے تین بار کی مڈبھیڑ کی یادگار ہے، جب شیطان نے ان کے ارادے کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور حضرت ابراہیم نے اسے کنکریاں مار کر دور کیا، تو اس عمل کا مفہوم روشن ہو جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنی زندگی کے میدانِ جہادِ اکبر میں شیطانی وسوسوں سے لڑنا ہے۔ جب تک ہم ان وسوسوں کو سنگسار نہ کریں اور خود سے نہ دور کریں، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ویسا ہی مقام دے جیسا حضرت ابراہیم کو عطا کیا، تو ہمیں بھی ان کے راستے کو جاری رکھنا ہوگا۔
اور جب ہم “صفا” اور “مروہ” کے درمیان سعی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک چھوٹی پہاڑی سے دوسری چھوٹی پہاڑی کی طرف دوڑتے یا چلتے ہیں اور بار بار یہ عمل دہراتے ہیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کیا مقصد ہے؟
مگر جب ہمیں حضرت ہاجرہ کی کوشش یاد آتی ہے، جنہوں نے اپنے شیرخوار بچے اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لیے ان پہاڑیوں کے درمیان سعی کی، اور اللہ نے ان کی کوشش کے نتیجے میں زمزم کا چشمہ جاری کیا، تو ہم اس عمل کی حقیقت کو محسوس کرتے ہیں۔ ہم خود کو اس لمحے میں ہاجرہ کے ساتھ پاتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں بغیر کوشش کے کوئی منزل حاصل نہیں ہوتی۔
جو کچھ بیان کیا گیا، اس سے آسانی سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ “حج” کو اس کے رموز کے ساتھ سکھانا چاہیے، اور حضرت ابراہیم، ان کے بیٹے اور بیوی کی یادوں کو قدم بہ قدم مجسم کرنا چاہیے، تاکہ نہ صرف فلسفۂ حج سمجھ میں آئے بلکہ اس کے گہرے اخلاقی اثرات بھی حجاج کے دلوں پر نازل ہوں۔ کیونکہ ان اثرات کے بغیر حج صرف ایک ظاہری عمل رہ جاتا ہے۔
(تفسیر نمونه، جلد 19، صفحہ 125)
رہبر انقلاب اسلامی حج کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر فرماتے ہیں :
“یہ کوئی عام زیارتی سفر نہیں ہے؛ یہ کوئی سیاحتی سفر نہیں ہے۔ یہ آپ کا حج کا سفر اور آپ کا عملِ حج، ایک انتہائی اہم اقدام میں شرکت ہے جسے خداوندِ متعال نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے مقرر کیا ہے — نہ صرف مومنین اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے، بلکہ تمام انسانوں کے لیے۔ حج، انسانیت کی رہنمائی کے لیے ہے۔ اسی لیے قرآن میں ابراہیمؑ سے فرمایا گیا ہے: “وَ أَذِّن فِی النّاسِ بِالحَجّ” — “فِی النّاس”، یعنی تمام لوگ، پوری دنیا کے لوگ؛ اس وقت کے اکثر لوگ ابراہیمؑ پر ایمان نہیں رکھتے تھے، لیکن حج کی اذان، حج کا اعلان، اور دعوت، پوری انسانیت کے لیے ہے۔ “جَعَلَ اللّهُ الكَعبَةَ البَیتَ الحَرامَ قِیاماً لِلنّاس” — خداوندِ متعال نے اس عظیم گھر کو انسانیت کی قیام گاہ بنایا ہے؛ یہی حقیقت ہے۔ یا دوسری آیت: “إِنَّ أَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنّاسِ لَلَّذی بِبَكَّةَ” — یہ گھر جو ہم نے مکّہ میں، بکہ میں بنایا، “وُضِعَ لِلنّاس”، یعنی پوری انسانیت کے لیے ہے۔ اس نظر سے دیکھیں۔ آپ کا عمل، آپ کا جانا، طواف کرنا، زیارت کرنا اس گھر کی طرف، ایک ایسا عمل ہے جس کا فائدہ پوری انسانیت کو پہنچتا ہے؛ بشرطیکہ اسے درست طریقے سے، اس کے تمام شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے، جنہیں ہم بار بار ان پیغامات میں ذکر کر چکے ہیں۔ صحیح حج، انسانیت کی خدمت ہے؛ صرف آپ کی یا آپ کے ملک کی خدمت نہیں، صرف امتِ مسلمہ کی خدمت نہیں؛ یہ پوری انسانیت کی خدمت ہے۔ تو آپ دیکھیے کہ حج کتنی بڑی چیز ہے۔ آپ اس عمل میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ ایک نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فریضۂ حج، ایک ایسا فریضہ ہے — بلکہ شاید کہا جا سکتا ہے کہ واحد فریضہ ہے — جس کی ظاہری ہیئت اور ترکیب سو فیصد سیاسی ہے۔ لوگوں کو ایک مخصوص جگہ، ایک خاص وقت پر، ہر سال — جو بھی اس کی استطاعت رکھتا ہو — اکٹھا کرنا، یہ کیا ہے؟ لوگوں کا اجتماع، ایک جگہ اکٹھا ہونا، بذاتِ خود ایک سیاسی نوعیت رکھتا ہے؛ یعنی حج کی ماہیت، برخلاف بعض لوگوں کی کوششوں، اقوال اور اعمال کے جو اس حقیقت کو مجروح کرنے کا سبب ہوتے ہیں سیاسی ہے؛ اس کی صورت، اس کی ساخت، اس کی ترکیب — سب کچھ سیاسی ہے؛ یہ اس کی ایک خصوصیت ہے۔
ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس سیاسی ترکیب، سیاسی قالب، اس کا اندرونی مواد سو فیصد عبادتی ہے؛ اس سیاسی سانچے کا مواد خالص عبادت ہے۔ جب آپ احرام باندھتے ہیں تو کہتے ہیں: “لبّیک” — خداوندِ متعال سے حاجت کا اظہار، محبت کا اعلان؛ “لَبَّیکَ اللّهُمَّ لَبَّیک”۔ پھر آپ احرام میں داخل ہوتے ہیں؛ احرام، دعا، ذکر، عبادت — سب کچھ معنوی اور عبادی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی یہ سیاسی شکل، خالص عبادی مواد رکھتی ہے۔ اب دیکھیے کہ یہ سب پہلو حج کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور یہ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یہی عبادی مفہوم، یہی عبادی مواد، اس کے ہر حصے میں انسانی زندگی کی طرف ایک علامتی اشارہ موجود ہے۔ حج کے ہر عبادی عمل میں ایک علامتی پہلو ہے — جسے مغربی زبان میں “سمبلک” کہتے ہیں — اور یہ ایک انسانی یا بشری مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مثلاً “طواف” جو آپ کرتے ہیں، اس کا درس یہ ہے کہ آپ کی زندگی کا چکر توحید کے مرکز کے گرد ہونا چاہیے۔ یہ انسانیت کو سکھاتا ہے کہ زندگی کی حرکت مرکزِ توحید کے گرد ہونی چاہیے: توحیدی زندگی، توحیدی حکومت، توحیدی معیشت، بھائی چارہ، گھر، سماج — سب کچھ توحید کے محور پر ہونا چاہیے۔ طواف ایک زندگی کا درس دیتا ہے؛ اور ہم — جو مسلمان اور مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کی راہ پر ہیں جبکہ اس سے بہت دُور ہیں؛ وہ لوگ جو خدا کو مانتے ہی نہیں، ان کا تو کہنا ہی کیا۔ اگر انسانیت کو یہ توفیق مل جائے کہ ان کی زندگی، حکومت، تعلیم، جنگ، امن، دوستی، دشمنی سب کچھ خدا کے محور پر ہو، تو دنیا گل و گلزار بن جائے۔ اگر توحید معیار بن جائے، تو خودغرضیاں، ظلم، بےرحمیاں، قساوتیں، قتل و غارت، بچوں کا قتل، استعماری قبضے، اور دوسروں کے ملکوں میں مداخلت ختم ہو جائے۔ طواف آپ کو یہ سکھاتا ہے: زندگی کا درس، توحید ہے؛ اور یہ صرف مومنین کا نہیں، پوری انسانیت کا ہے: “أَذِّن فِی النّاسِ بِالحَجّ”؛ “قِیاماً لِلنّاس”۔
“سعی” صفا اور مروہ کے درمیان ایک عبادت ہے؛ آپ اس میں ذکر کرتے ہیں، دعائیں پڑھتے ہیں، لیکن اس کا علامتی مفہوم ہے؛ یعنی زندگی کے مسائل و مشکلات کے پہاڑوں کے درمیان ہمیشہ حرکت میں رہیں، کوشش کریں۔ “سعی” یعنی تیز قدموں سے چلنا۔ “وَ جاءَ مِن أَقصَى المَدینَةِ رَجُلٌ یَسعىٰ” — یعنی وہ دوڑتا ہوا آیا۔ “سعی” یعنی تیز رفتار حرکت۔ زندگی کے دشوار راستوں اور پہاڑوں کے درمیان کبھی رکیں نہیں، کبھی حیران و معطل نہ رہیں؛ مسلسل حرکت کریں، سرعت دکھائیں؛ سعی کا درس اور اس کا علامتی اشارہ یہی ہے۔ عرفات جانا، مشعر جانا، منیٰ جانا — اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو مکّہ آئے ہیں، چند دن مکّہ میں ٹھہر نہ جائیں۔ “تعطل ” خدا کی طرف سے انسان کے لیے پسندیدہ نہیں۔ انسان “حرکت” کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ آپ کے پاس ہاتھ ہیں، پاؤں ہیں، زبان ہے، عقل ہے، قوت ہے، طاقت ہے — آپ کو حرکت کرنی چاہیے؛ چلنا چاہیے۔ عرفات جانا، مشعر جانا، منیٰ جانا — سب کا درس یہی ہے” ۔
https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=60099
مختصر یہ کہ حج ایسی عبادت ہے جو معاشرے کے تعطل کو ختم کرکے اسے حرکت اور آگے بڑھنے کی راہ پر گامزن کرنے کا ذریعہ ہے۔ امید ہے کہ ہم فلسفہ حج کو سمجھتے ہوئے اس عبادت کو اسطرح انجام دیں گے جیسا اسکا حق ہے
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں