اردوغان کا خواب: اسد کے زوال کے بعد ترکی گیس کا مرکز بن جائے

بین الاقوامی اقتصادی امور کے حوالے سے فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ترکی کے وزیر برائے توانائی و قدرتی وسائل، الپراسلان بائراکتار، نے گزشتہ ہفتے کہا کہ قطر اور ترکی کے درمیان گیس کی منتقلی کے لیے پائپ لائن منصوبہ، جو کافی عرصے سے تعطل کا شکار تھا، اسد حکومت کے خاتمے کے بعد دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بین الاقوامی اقتصادی امور کے حوالے سے فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ترکی کے وزیر برائے توانائی و قدرتی وسائل، الپراسلان بائراکتار، نے گزشتہ ہفتے کہا کہ قطر اور ترکی کے درمیان گیس کی منتقلی کے لیے پائپ لائن منصوبہ، جو کافی عرصے سے تعطل کا شکار تھا، اسد حکومت کے خاتمے کے بعد دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع، جنہوں نے اسد کے بعد دمشق کا کنٹرول سنبھالا ہے، نے بھی قطر کی جانب سے شام کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فیصلے کا اعلان کیا۔ ترکی کے وزرائے ٹرانسپورٹ اور توانائی کی قیادت میں وفود جلد ہی دمشق کا دورہ کریں گے۔
اگرچہ بظاہر یہ واضح نہیں کہ شام میں نئی مستحکم حکومت کے قیام سے پہلے ہی قطر اور ترکی سرمایہ کاری کے معاملات کیوں جلدی میں دیکھ رہے ہیں، لیکن یہ صورتحال ایک پس پردہ حقیقت سے جڑی ہوئی ہے۔
اطلاعاتی رپورٹس کے مطابق، شام کے صدر بشار الاسد کی جانب سے قطر کی گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت، جس کا راستہ شام سے ہو کر ترکی تک جانا تھا، جسکی اسد نے مخالفت کی اور ترکی کو گیس کے ٹرانزٹ ہب میں تبدیل کرنے کی کوششوں کے بجائے ایران اور عراق کے ساتھ دمشق کے گیس برآمدات کے معاہدے کو شام کی پالیسی کے طور پر پیش کیا جس نے اسدحکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
اطلاعاتی رپورٹس کے مطابق، بشار الاسد کی قطر کی زمینی گیس پائپ لائن کے منصوبے، جو شام سے گزر کر ترکی کو گیس کے ترسیلی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے تھا، کی مخالفت اور اس کے بجائے ایران و عراق کے ساتھ دمشق کے گیس برآمدی معاہدے پر دستخط نے ان کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
موسیٰ عاصی نے اس سلسلہ سے ایک تجزیاتی تحریر اس بات کی وضاحت کی :
یمنی مصنف موسیٰ عاصی نے دو دن پہلے اخبار الثورہ میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا:
“شامیوں نے ترکی کے ذریعے یورپ کو گیس کی ترسیل کے لیے کیا قیمت چکائی؟”
مضمون میں لکھا ہے کہ شام میں مسلح گروہوں کے قبضے کے ایک ہفتے کے اندر ہی قطر کی گیس پائپ لائن کے منصوبے کی بات سامنے آگئی۔ یہ منصوبہ دراصل 2009 سے موجود تھا، جسے اس وقت شام کے صدر بشار الاسد نے، جنگ شروع ہونے سے دو سال قبل، مسترد کر دیا تھا۔
اس منصوبے کی لاگت تقریباً 10 ارب ڈالر تھی اور یہ 1500 کلومیٹر کی مسافت پر محیط تھا، جس کی شروعات قطر کے جنوبی پارس گیس فیلڈ سے ہونی تھی۔ اس منصوبے کے تحت یہ پائپ لائن سعودی عرب، اردن، شام، اور پھر ترکی سے گزرتے ہوئے یورپ تک پہنچتی۔ اس پائپ لائن کا مقصد یورپ کی گیس کی ضروریات میں روس پر انحصار کم کرنا (یوکرین جنگ سے پہلے) اور ترکی کو گیس کی ترسیل کا ایک اسٹریٹجک مرکز بنانا تھا، جو یورپ اور دیگر علاقوں میں گیس کی تقسیم کا اہم کردار ادا کرتا۔

ایسی پائپ لائن کی تعمیر کا اثر:

ایسی پائپ لائن کی تعمیر مشرق وسطیٰ کی بڑی مقدار میں گیس ترکی کے ہاتھ میں دے دے گی، جو بطور تقسیم کار کام کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آذربائیجان کی بڑی گیس کی مقدار بھی ترسیلی پائپ لائن “تاناپ” (TANAP) کے ذریعے ترکی پہنچتی ہے۔ یہ وہ پائپ لائن ہے جو بحیرہ خزر میں موجود آذربائیجان کے گیس کے ذخائر کو جارجیا کے راستے ترکی سے جوڑتی ہے اور وہاں سے یورپ تک پہنچتی ہے۔ اس وقت اس پائپ لائن کی سالانہ گنجائش 22 ارب مکعب میٹر ہے، جس میں سے 10 ارب ترکی کے داخلی استعمال کے لیے مختص ہیں اور 12 ارب یورپ کو فراہم کی جاتی ہے۔
یہ مقدار 2026 تک، جب آذربائیجان اور ترکی کے درمیان اضافی پائپ لائنز (جنہیں “جنوبی گیس کوریڈور” کہا جاتا ہے) مکمل ہو جائیں گی، بڑھ کر تقریباً 60 ارب مکعب میٹر سالانہ ہو جائے گی۔

اسد نے مخالفت کیوں کی؟

مغربی میڈیا اور فیصلہ سازی کے مراکز نے اس وقت اسد کی جانب سے قطر-ترکی منصوبے کو مسترد کرنے کی واحد وجہ روس کے مفادات کو قرار دیا۔ ان کے مطابق، اگر یہ منصوبہ عمل میں آتا تو قطر کی گیس روس کی گیس کی جگہ لے لیتی، جبکہ یوکرین کی جنگ سے قبل روس یورپ کی گیس کی ضروریات کا 45 فیصد حصہ فراہم کر رہا تھا۔

یہ مفروضہ کسی حد تک درست ہے، کیونکہ ماسکو شام کا تاریخی اتحادی ہے اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ دمشق کوئی ایسا فیصلہ کرے جو اپنے اتحادی کے مفادات کو خطرے میں ڈالے۔ اس وقت اسد پر روس کے مفادات کو اپنے عوام کے مفادات پر ترجیح دینے کا الزام لگایا گیا، حالانکہ اس کے عوام گیس کے اپنی سرزمین سے گزرنے کے حق سے کسی حد تک فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
تاہم، اس مرحلے سے سامنے آنے والے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اسد کا انکار ایک اور جائز وجہ رکھتا تھا اور اس منصوبے کے مقابلے میں کہیں زیادہ اقتصادی فوائد شام کو حاصل ہو سکتے تھے۔
اس وقت، اسد روس کی حمایت سے ایک ایسے منصوبے پر بات چیت کر رہے تھے جس میں ایران کی گیس کو عراق کے راستے شام اور بحیرہ روم کے ذریعے یورپ منتقل کرنے کے لیے ایک پائپ لائن تعمیر کی جانی تھی۔
یہ منصوبہ نہ صرف شام کی گیس کی ضروریات پوری کرتا بلکہ شام کو ترکی کے بجائے گیس کی برآمدات کے لیے ایک اسٹریٹجک مرکز میں تبدیل کر دیتا۔
اسی سلسلے میں، جولائی 2011 میں ایران، عراق، اور شام کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے، یعنی شام کی جنگ شروع ہونے کے صرف تین ماہ بعد۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ 2016 تک اس منصوبے کو 10 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کر کے فعال کر دیا جائے۔ تاہم، 2009 میں شام میں قطر گیس پائپ لائن کے لیے اردوان کی پیشکش کے ساتھ ہی، مشرقی بحیرہ روم کے علاقے (لبنان، شام، قبرص، اور مصر کے علاقوں) میں وسیع قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے۔ ان ذخائر کی تلاش کے لائسنس براہ راست امریکی اور یورپی کمپنیوں کو دیے گئے، جس نے اس منصوبے کی اہمیت میں مزید اضافہ کیا، کیونکہ یہ ذخائر ترکی کے ذریعے منتقل کیے جا سکتے تھے۔

اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قطر-ترکی منصوبہ اور اسے شام کے صدر کی جانب سے مسترد کیا جانا شام کی جنگ کے آغاز (2011) میں اسد حکومت کو گرانے کا ایک جائز بہانہ بن گیا۔ اس جنگ میں وہ قوتیں شامل تھیں جن کا گیس کے منصوبے سے مفاد وابستہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ روس نے اس جنگ میں مداخلت کی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے روسی مطالعات کے مرکز سے وابستہ پروفیسر میشل اورن اسٹائن کے مطابق، روس اس لیے جنگ میں شامل ہوا کیونکہ شام میں کسی بھی قسم کی حکومت کی تبدیلی کا مطلب یہ ہوتا کہ ایک نئی حکومت آتی جو قطر گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت نہ کرتی۔
اسی طرح، شام میں جو نیا نظام قائم ہوتا، وہ مشرقی بحیرہ روم کے ساحلوں سے پیدا ہونے والی گیس کو جمع کرنے اور یورپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ مقدار میں گیس بھیجنے کے علاقائی انتظامات کی مخالفت نہ کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ یہ گیس روسی گیس کا حتمی متبادل بن جاتی۔
نفیز احمد، برطانوی مصنف، اپنی کتاب Middle East Eye اور The Guardian میں لکھتے ہیں کہ سعودی شہزادہ بندر بن سلطان کا ماننا تھا کہ ایران، عراق اور شام کے درمیان پائپ لائن منصوبے کی تعمیر قطر کے منصوبوں پر ایک براہ راست ضرب ہوگی اور اس سے خطے میں ایران کا اثر و رسوخ بے حد بڑھ جائے گا۔
سعودی شہزادے نے روس کو رشوت دینے کی کوشش کی اور اس سے کہا کہ وہ اس منصوبے کی اجازت نہ دے۔ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتین کو اطلاع دی کہ اسد کے بعد آنے والا کوئی بھی نظام مکمل طور پر سعودی عرب کے کنٹرول میں ہوگا۔ لیکن جب پوتین نے یہ رشوت قبول نہیں کی تو شہزادے نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کا وعدہ کیا۔
قطر-ترکی پائپ لائن کی اسرائیل کی حمایت
اسرائیل کو بھی ایران، عراق، اور شام کی پائپ لائن کے منصوبے کے خلاف براہ راست مفادات حاصل تھے۔ 2003 میں، عراق جنگ کے آغاز کے صرف ایک ماہ بعد، برطانوی اخبار گارڈین نے امریکی اور اسرائیلی حکومتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی کہ “عراق کے نوآبادیاتی علاقوں سے اسرائیل تک تیل لے جانے کے لیے ایک پائپ لائن کی تعمیر کے منصوبے” پر غور کیا جا رہا ہے۔ یہ پائپ لائن اردن کے راستے تعمیر کی جانی تھی۔
2007 کے آخر تک، امریکی اور اسرائیلی حکام اس منصوبے کی لاگت پر بحث کر رہے تھے، لیکن بعد میں عراق میں ہونے والی پیش رفت (عراقی مزاحمت کے ابھرنے) کے باعث یہ منصوبہ منسوخ کر دیا گیا۔

2009 میں شام میں خانہ جنگی شروع کرنے کی تیاریوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ قطری-ترکی منصوبہ امریکہ اور یورپ کی حمایت بھی رکھتا تھا، کیونکہ اس سے روسی معیشت کو بڑا نقصان پہنچتا۔ فرانس کے سابق وزیر خارجہ رولان دوما کے مطابق، برطانیہ 2009 سے ہی ایک خفیہ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور مسلح عناصر کو شام میں جنگ کے لیے تیار کر رہا تھا، یعنی اسی سال جب اردگان نے قطر گیس پائپ لائن کا منصوبہ اسد کو پیش کیا تھا۔

اسلامی انتہا پسندی اور شام کے وسائل پر قبضہ

“اسلامی انتہا پسندوں” بشمول جبهة النصرہ، جو اب بھی امریکہ کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل ہے، نے 2013 کے وسط میں ترکی کے حمایت یافتہ “فری سیرین آرمی” کے ساتھ اتحاد کے ذریعے دیر الزور اور الحسکہ کے دو صوبوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے سے انہوں نے بے پناہ مالی فوائد حاصل کیے۔

واقعہ 11 ستمبر 2001 کا پس منظر

ان واقعات کی جڑیں 11 ستمبر 2001 کے حملوں تک جاتی ہیں۔ برطانوی مصنف ڈاکٹر نفیز احمد کے مطابق، نیٹو کے ریٹائرڈ سیکریٹری جنرل ویسلی کلارک نے ان حملوں کے چند ہفتوں بعد امریکی وزیر دفاع کے دفتر سے ایک نوٹ کے مندرجات ظاہر کیے۔ اس نوٹ میں سات ممالک کی حکومتوں پر حملہ کر کے انہیں ختم کرنے کا منصوبہ تھا، جو پانچ سال کے اندر مکمل ہونا تھا۔ ان ممالک میں عراق سے آغاز کر کے شام، لبنان، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور ایران شامل تھے، اور اس منصوبے کا مقصد خطے کے وسیع تیل اور گیس کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔

امریکی منصوبہ اور مشرق وسطیٰ کے وسائل

2008 میں امریکی فوجی مطالعاتی ادارے RAND کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ بعنوان “طویل جنگ کے مستقبل کی کھوج” میں کہا گیا کہ صنعتی ممالک اب بھی تیل پر شدید انحصار کرتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر تیل مشرق وسطیٰ سے نکالا جاتا ہے، اس لیے امریکہ کے پاس مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے اور خطے کے تیل اور گیس پر اپنے کنٹرول کو مکمل یا جزوی طور پر کھونے سے بچنے کے لیے تمام اقدامات اٹھانے کی ترغیب ہے۔
یہ واضح تھا کہ شام کے سابق صدر بشار الاسد، ایران کے ساتھ اتحاد اور عراق کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی وجہ سے ترکی اور اسرائیل کی قیادت میں چند ممالک کے لیے اسٹریٹجک خدشات کا باعث بنیں۔ یہ دونوں ممالک ایران-عراق گیس پائپ لائن کے منصوبے کے ممکنہ نقصان اٹھانے والوں میں شامل تھے۔
ایک طرف، یہ منصوبہ ترکی کو بین الاقوامی گیس مرکز (ہب) بننے سے روک دیتا، حالانکہ ترکی روس کی طرح یورپ پر کئی دہائیوں تک دباؤ ڈالنے کے لیے اس پوزیشن کا استعمال کر سکتا تھا۔ اردگان نے یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے منصوبے کی مخالفت کو کبھی نہیں بھلایا تھا
دوسری طرف، اسرائیل، جو ایک گیس برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے اور گزشتہ دو سالوں میں یورپ کو گیس کی منتقلی کے لیے معاہدے کر چکا ہے، ترکی-قطر پائپ لائن میں اپنے گیس کو یورپ منتقل کرنے کے لیے ایک مثالی حل دیکھتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی، دمشق میں حکومت کی تبدیلی کے ذریعے، اسرائیل ایک معاندانہ گیس منصوبے سے بھی نجات حاصل کر لیتا، کیونکہ ایران-عراق گیس پائپ لائن کی کامیابی ان ممالک کے لیے یقینی طور پر ایک غیر معمولی اقتصادی فائدہ ہوتی۔
ایسا لگتا ہے کہ گیس اور تیل پر ہونے والا تنازع شام میں مداخلت اور حکومت کی تبدیلی کی اصل وجہ تھا، نہ کہ کسی کو شامی عوام کی جانوں کی فکر تھی۔
امریکہ کی حمایت کا کردار
رابرٹ کینیڈی، جان ایف کینیڈی کے بھتیجے، نے نقل کیا کہ واشنگٹن نے 2000 سے ایک ایسے منصوبے پر کام کرنا شروع کیا جس میں قطر کی گیس یورپ میں روسی گیس کی متبادل بنے ۔ انہوں نے پولٹیکو میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ 10 سال بعد اسد سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا گیا، کیونکہ اسد روس کے دباؤ میں آ کر قطر-ترکی پائپ لائن کے منصوبے کو مسترد کر رہا تھا۔ چند دن پہلے انقرہ میں یہ اعلان کیا گیا کہ بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ قطر اور ترکی کے درمیان قدرتی گیس پائپ لائن کے منصوبے کو عملی شکل دے رہا ہے۔

بشری زینپ اوزدمیر، ترکی کی سیاسی اور اقتصادی محققہ، کہتی ہیں کہ شام قطر کے لیے قدرتی گیس کی برآمدات کے حوالے سے بہت اہم ملک ہے، اور شام کی 10 سال تک جاری رہنے والی جنگ نے اس منصوبے کو عملی طور پر ناممکن بنا دیا تھا، لیکن اب جب شام میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو جائے گی، تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ علاقے میں کسی بھی سیاسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرے گا۔

شاید سعودی عرب ترکی کے خوابوں کو تباہ کر دے

شاید ترکی کی آرزوئیں کچھ جلد بازی پر مبنی ہوں، کیونکہ شام میں حالیہ ترقیات، مسلح گروپوں کی حاکمیت اور قطر کی خلیج فارس کے ممالک میں اسد کے خلاف جنگ کے انتظام میں اجارہ داری نے ریاض میں شدید غصے کو جنم دیا ہے، خاص طور پر جب سعودی عرب نے بشار اسد کے لیے اپنے دروازے کھولے۔ یہ غصہ، جو دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی مشترک ہے، دوحہ اور ریاض کے درمیان 2013 اور 2021 کے دوران کی تلخ تعلقات کو دوبارہ جنم دے سکتا ہے اور کم از کم قریبی مستقبل میں انقرہ کے گیس کے خوابوں کو ختم کر سکتا ہے۔