اسرائیل میں ہم جنس پرستی کا رواج

دلچسپ بات یہ ہے کہ طول تاریخ میں یہودیوں کی عملی زندگی پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حیوانی اور نازیبا عمل ان کی زندگیوں میں نظرنہیں آتا اسی وجہ سے یہودیوں کی مقدس کتاب “تلمود” میں اس موضوع کے سلسلے سے کوئی گفتگو نہیں ملتی

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہم جنس پرستی ایک ایسی وبا ہے جو عرصہ دراز سے بشریت کے دامن گیر ہو چکی ہے لیکن کچھ سالوں سے یہ وبا بہت تیزی سے انسانی معاشروں میں پھیلتی جا رہی ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد اس کی طرف کھچی چلی آ رہی ہے۔ اسرائیل بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جو معرض وجود میں آنے کے بعد تو کچھ عرصے تک اس عمل کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتا رہا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد حالات میں تبدیلی آ گئی اور گزشتہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دے دی گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل ہم جنس پرستی کا سب سے بڑا اڈہ اور حامی بن چکا ہے۔(۱) یہاں تک کہ ہم جنس پرست سیاحوں کے لیے کلب اور مخصوص پارک بنائے گئے ہیں اور سالانہ وافر مقدار میں پیسہ اس طریقے سے کمایا جاتا ہے(۲)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طول تاریخ میں یہودیوں کی عملی زندگی پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حیوانی اور نازیبا عمل ان کی زندگیوں میں نظرنہیں آتا اسی وجہ سے یہودیوں کی مقدس کتاب “تلمود” میں اس موضوع کے سلسلے سے کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ حتیٰ میلاد مسیح سے قبل بھی اس معاشرے میں ’’ہلنی‘‘ اور ’’یہودی‘‘ نامی دو ثقافتیں موجود تھیں اور یہودی کافی حد تک ہلنی ثقافت سے متاثر تھے اور ہلنی ثقافت میں ہم جنس پرستی کھلے عام پائی جاتی تھی اس کے باوجود اس دور کے یہودی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ ایسے حال میں تھا کہ جناب لوط، جناب بلیعال اور بنیامین کے زمانے میں یہ عمل گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا اور اس گناہ کے مرتکب ہونے والے کو پھانسی کی سزا دی جاتی تھی۔
لیکن اسرائیل میں مذہبی گروہوں کی شدید مخالفتوں کے باوجود، ہم جنس پرست یہودیوں نے “ماگنوس ہرشفیلڈ” کی سرپرستی میں پہلا گروہ تشکیل دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ۱۹۷۷ میں پہلی بار تل ابیب میں ہم جنس پرستوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اور نتیجہ میں دو دہائیوں سے کم عرصے میں یہ عمل قانونی شکل اختیار کر گیا۔ اور اس کے کچھ ہی دنوں بعد فلسطین کے مقدس شہر القدس میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ آرتھوڈوکس یہودی کہ جو دوسرے یہودیوں کی نسبت زیادہ مذہبی تھے کی مخالفت کے باوجود، اصلاح طلب یہودی ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہونے لگے اور انہوں نے اپنے رابی اور معبد بھی الگ کر لئے۔
در حقیقت اسرائیل میں یہ انحرافی فکر سنہ ۱۹۸۸ کی طرف پلٹی ہے جب کینیسٹ نے آرتھوڈوکس ربیوں کی مخالفت کے باوجود ہم جنس پرستی کی سزا کے قانون کو منسوخ کیا۔ اس ماجرے کے بعد اس موضوع پر عبرانی اور انگریزی زبان میں مختلف جریدے چھپنے لگے۔ حکومت وقت نے اس جماعت کی حمایت کے لیے مختلف طرح کے دیگر قوانین جیسے ’’ ہم جنس شادی کو سرکاری حیثیت دینا، منہ بولا بیٹا لینے کو جواز فراہم کرنا، انہیں سرکاری نوکریاں دینا، ہم جنس جوڑوں سے مربوط حقوق کی حمایت کرنا جیسے وراثت کا حق، راشن کارڈ کی منظوری، ہم جنس پرستوں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیوں کی روک تھام، وغیرہ وغیرہ منظور کئے۔
دین اور انسانیت مخالف اس اقدام نے یہودی مذہبی سماج خصوصا آرتھوڈوکس جماعت کو انتہائی غضبناک کیا۔ وہ ہم جنس پرستی کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور اس عمل کے مرتکب ہونے والے افراد کو جانوروں کے برابر سمجھتے ہیں۔ ایک آرتھوڈوکس ربی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’پہلے تل ابیب سیکولر افراد کے اجتماع کا مرکز اور قدس دیندار یہودیوں کا پایتخت تھا لیکن اب ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ فساد کے آلات اور غیر اخلاقی جرائد کے فروخت کی دکانیں اب پورے قدس حتیٰ دیوار گریہ کے پاس بھی دیکھنے کو ملتی ہیں‘‘۔
مذہبی یہودیوں کے عقیدے کے مطابق، ہم جنس پرستی غضب الہی کا سبب اور عذاب الہی کا باعث ہے۔ مثال کے طور پر ’’شلومو بنیزری‘‘ کہ جو کینیسٹ میں ’’شاسی‘‘ پارٹی کے رکن اور صہیونی ریاست کے سابق وزیر بھی ہیں اس بارے میں کہتے ہیں: مجھے ایسے زلزلے کا انتظار ہے جو پورے اسرائیل کو نابود کر دے چونکہ حکومت ہم جنس پرستی کو رواج دے رہی ہے اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت کر ری ہے‘‘۔
یہ ناراضگیاں بعض اوقات پرتشدد کاروائیوں کا سبب بھی بنیں اور بعض اوقات موت کا۔ ۲۰۰۵ میں ہونے والی ہم جنس پرستوں کی ریلی میں ایک آرتھوڈوکس یہودی نے ریلی پر حملہ کیا اور ایک آدمی کو ہلاک اور دسیوں کو زخمی کر دیا۔ ایسے واقعات متعدد بار اس جیسی ریلیوں میں رونما ہوتے رہے ہیں.
مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چہ ہم جنس پرستی ایک عوامی جماعت کا مطالبہ تھا لیکن یہودیوں کی مذہبی اکثریت کے باوجود کیوں اسرائیل پر حاکم نظام نے اس انحرافی ٹولے کی حمایت کی اور اس نازیبا فعل کو قانونی قرار دیا؟

اس سوال کا جواب اگلی تحریر میں ملاحظہ کریں گے۔