اسرائیل پر اولمپکس 2024ء میں پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟

حالیہ دنوں اولمپکس سے متعلق آنے والی اطلاعات کے مطابق غاصب صیہونی حکومت فرانس کے شہر پیرس میں منعقد ہونے والی اولمپکس کھیلوں کے لئے ایک بڑی تعداد بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ غاصب صیہونی حکومت نے غزہ میں اولمپک کمیٹی کے دفتر کو بھی بمباری کرکے تباہ کر دیا ہے۔

فاران: کہا جاتا ہے کہ کھیل غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ یا اس طرح کہہ لیجئے کہ کھیلوں کو سیاست کے مسائل سے دور رکھنا چاہیئے۔ حالانکہ یہ بات کبھی بھی عملی طور پر تسلیم نہیں کی گئی ہے، بلکہ اب تو سیاسی اصولوں میں خاص طور پر خارجہ پالیسی کے اصولوں میں کھیلوں کی ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی ایجاد ہوچکی ہے۔ بہرحال یہ بات یہاں اس لئے بیان کی گئی ہے، تاکہ مقالہ کے آغاز پر قارئین سمجھ جائیں کہ آخر کھیلوں کی اہمیت کیا ہے اور اس میں سیاسی عمل دخل ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کا واضح جواب تو یہی ہے کہ عملی طور پر کھیل سیاست کے اثر سے جدا نہیں ہیں۔ ایسی درجنوں کھیلوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ہم اس مقالہ میں آئندہ چند دنوں میں عالمی سطح پر منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں کے کھیلوں سے متعلق بات کریں گے۔ جب ہم اولمپکس کی بات کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں تمام تر دعووں کے باوجود کہ کھیلوں کو سیاسی مسائل سے دور رکھا جائے، عملی طور پر ایسا نہیں کیا گیا ہے۔

سنہ2023ء کی بات ہے کہ اولمپکس کی بین الاقوامی کمیٹی نے ستمبر 2023ء میں بین الاقوامی امن کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے، روس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی اور اس کے بعد اولمپک کھیلوں میں روس کی شرکت کو روک دیا۔ اس اقدام نے ایک پیشگی فیصلے کی بازگشت کی، جس نے روس کی فٹ بال ٹیم کو قطر 2022ء ورلڈ کپ کوالیفائرز سے بھی خارج کر دیا۔ اولمپک میں شرکت کی اہلیت IOC یعنی عالمی اولمپکس کمیٹی کی توثیق پر منحصر ہے، جسے کسی بھی صوابدید پر، اکثر جواز کے بغیر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اختیار خاص طور پر یوکرین کے تنازعہ کے درمیان استعمال کیا گیا تھا۔ آئی او سی کے اس موقف کو دیکھتے ہوئے کہ بین الاقوامی امن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اولمپکس جیسے عالمی مقابلوں میں حصہ نہیں لینا چاہیئے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل پر بھی ایسی ہی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتیں۔؟

اب اگر ہم تاریخی طور پر، IOC کے کچھ فیصلوں کو دیکھیں تو ہم جانتے ہیں کہ اس کمیٹی کی موجودگی کے باوجود بھی میزبان ممالک نے عالمی امن سے سمجھوتہ کرنے والے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے اپنے حق کا استعمال کیا ہے۔ جنہیں اکثر بین الاقوامی اتحادیوں اور سول سوسائٹی کی تحریکوں کی حمایت حاصل ہے۔ IOC اور دیگر اقوام سے اسرائیلی شرکت کو روکنے کی توقع تاریخی اقدامات سے جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، 1920ء کے اولمپکس کی میزبانی کرنے والے بیلجیم نے جرمنی، آسٹریا، بلغاریہ، ہنگری اور ترکی سمیت اپنے جیو پولیٹیکل مخالفوں کو خارج کر دیا، جرمنی کے اخراج کی مدت 1928ء تک تھی۔ اسی طرح، 1928ء کے لندن اولمپکس میں جرمنی اور جاپان کو دعوت نہیں دی گئی۔ یہ فیصلے میزبان ممالک کی طرف سے خود مختاری سے کیے گئے تھے۔ تاہم، آئی او سی نے خود فیصلہ کن کارروائی کی ہے، جیسے کہ جنوبی افریقہ کو 1964ء کے ٹوکیو اولمپکس سے روکنا اور 1968ء کے میکسیکو سٹی اولمپکس کے ذریعے 1992ء میں نسل پرستانہ حکومت کے خاتمے تک اس اخراج کو برقرار رکھنا۔ 2000ء میں افغانستان کو باہر رکھنا بھی اس لئے تھا، کیوںکہ وہاں طالبان کی حکومت تھی۔

حالیہ دنوں اولمپکس سے متعلق آنے والی اطلاعات کے مطابق غاصب صیہونی حکومت فرانس کے شہر پیرس میں منعقد ہونے والی اولمپکس کھیلوں کے لئے ایک بڑی تعداد بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ غاصب صیہونی حکومت نے غزہ میں اولمپک کمیٹی کے دفتر کو بھی بمباری کرکے تباہ کر دیا ہے۔ غزہ کے اسٹیڈیم کو بھی بمباری سے برباد کر دیا گیا ہے۔ لہذا اب عالمی کمیٹی برائے اولمپکس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے روس کو یکطرفہ فیصلہ کا نشانہ بنا کر پابندی کا شکار کیا ہے تو یہاں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو کھلی آزادی کیوں دی گئی ہے۔؟ اس وقت کھیلوں کی دنیا میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو ہرگز بھی کھیلنے کا حق نہیں ہے۔

مزید برآں، غزہ اولمپک کمیٹی کے دفتر کی مبینہ تباہی اور فلسطینی کھلاڑیوں کے نقصان نے پیرس 2024ء اولمپکس میں اسرائیلی ایتھلیٹس کی شرکت پر بحث کو تیز کر دیا ہے۔ ان واقعات کی روشنی میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں نے مبینہ اندھا دھند کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون پر ان کے اثرات کی تحقیقات کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ تصور کہ دوسروں کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے والی قوموں کو اولمپکس اور کھیلوں کے عالمی مقابلوں سے خارج کر دیا جانا چاہیئے۔ یہ بحث عالمی سطح پر شروع ہوچکی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی اولمپکس کمیٹی نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر پابندی عائد کرنے کی بجائے اولمپکس کھیلوں میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کرنے والے کھلاڑیوں کے لئے سزا کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ کھیل سیاست سے جدا نہیں ہیں۔ آئی او سی کے جانبدارانہ فیصلوں نے کھیل کے میدان کی اہمیت کو دائو پر لگا دیا ہے۔ آج پوری دنیا کے کھلاڑی اپنے ممالک سے عالمی اداروں اور اولمپکس کمیٹی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ میں جاری صیہونی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے جرم میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل پر اولپمکس 2024ء میں پابندی عائد کی جائے، کیونکہ یہ انسانیت کا تقاضہ ہے۔ پاکستان کی قومی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان کلیم اللہ خان نے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اسرائیل پر اولپمکس 2024ء میں پابندی عائد کی جائے۔ ان کے ساتھ ساتھ قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں سعد اللہ اور محمد ریاض نے بھی عالمی اولمپکس کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل پر پابندی عائد کی جائے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی شخصیات سمیت سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل پر اولمپکس میں پابندی عائد کی جائے۔

پاکستان کے شہر لاہور اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سائیکل سوار کھلاڑیوں بشمول تنویر خان، سارہ حبیب، محمد مبشر اور دائود خان سمیت متعدد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غاصب اسرائیل پر اولپمکس میں پابندی عائد کی جائے۔ پاکستان میں مارشل آرٹس کی دنیا کے ہیرو جابر بنگش نے بھی اولمپکس کھیلوں میں اسرائیل پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے روس کو اولمپک امن کے اصولوں کے خلاف کارروائیوں پر کھیلوں سے خارج کر دیا ہے تو پھر ضروری ہے کہ یہ پیمانہ سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہیئے، امن کے دشمن اور انسان دشمن قوتوں بالخصوص غزہ میں نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت پر پابندی عائد کی جائے۔ یہاں تک کہ عالمی عدالت انصاف نے بھی غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے کر وارنٹ گرفتاری نکال رکھے ہیں۔ ایسے حالات میں انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اولمپکس 2024ء میں غاصب اسرائیل پر پابندی لگائی جائے اور کھیلوں کے کسی مقابلوں میں شریک نہ ہونے دیا جائے۔