اسرائیل کی نابودی نہ پیش گوئی ہے نہ غیب گوئی، بلکہ قرآنی وعدہ ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: “جمعیت دفاع از ملت فلسطین” ٹرسٹ کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین محمد حسن رحیمیان نے “مزاحمت و فلسطین کے حامی قلمکاروں اور ناشرین کی انجمن” کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر امام خمینی (قدس سرہ) نے فیصلہ کن انداز سے یہودی ریاست کی فناء کی پیش گوئی کی اور اگر آج امام خامنہ ای (دام ظلہ) فرما رہے ہیں کہ اسرائیل نامی یہودی ریاست ۲۵ سال سے کم عرصے میں فنا ہوجائے گی۔ تو یہ نہ تو پیش گوئی ہے اور نہ ہی غیب گوئی بلکہ یہ قرآن کے متن سے ماخوذ ہے؛ چنانچہ مجھے امید ہے کہ اس طرح کے اجلاس اور بین الاقوامی انعامات کا اعلان اسرائیل کے زوال و فنا کی تمہید ہو۔
انہوں نے سیمینار کے اندرونی اور بیرونی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا: “فلسطین تمام مسلمانوں کا نقطۂ اشتراک ہے۔ فلسطین کا موضوع اور یہودی ـ صہیونی ریاست کے خلاف جہاد، ایران میں اسلامی تحریک کا ہمزاد اور ہم عمر ہے”۔
حجت الاسلام والمسلمین رحیمیان کے خطاب کے خاص خاص نکتے:
فلسطینی نصب العین ایران کی اسلامی تحریک کا ہمزاد
میں طفولیت کے ایام سے امام خمینی (قدس سرہ) کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک مؤرخ کے طور پر نہیں بلکہ عینی گواہ کے طور پر کہتا ہوں کہ فلسطین کا موضوع امام خمینی (قدس سرہ) کی اسلامی تحریک کا ہمزاد تھا۔ شاہ کی حکومت کے خلاف امام خمینی (قدس سرہ) کی جدوجہد کا اصل سبب یہ تھا کہ یہ شاہ اسرائیل کا حلیف اور امریکہ کا غلام تھا۔ اسرائیل کے خلاف جہاد اور فلسطین کی حمایت، اسلامی انقلاب پر منتج ہونے والی اسلامی تحریک کے آغاز سے لے کر آخر تک اور اسلامی انقلابی کی کامیابی سے لے کر آج تک بلا ناغہ جاری و ساری ہے۔
صہیونیت میں جو کچھ بھی ہے شرّ و فساد اور حق کی دشمنی ہے
یہودی ریاست کے خلاف جہاد آج بھی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے بنیادی اور اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ آج بھی ایرانی قوم اور رہبر انقلاب اسلامی بدستور یہودی ریاست کے خلاف جہاد اور فلسطین کی حمایت کو عالم اسلام کا پہلے درجے کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ یہودی ریاست کے خلاف امام خمینی (قدس سرہ) کے جہاد کی بنیاد قرآنی تعلیمات تھیں اور ہیں۔ کیونکہ قرآن ایک ثابت اور ناقابل تغیر و تبدل اصول ہے۔ چنانچہ جو کچھ بھی قرآن سے ماخوذ ہے وہ بھی ایک ثابت اور ناقابل تغیر اصول سمجھا جائے گا۔
امام خمینی (قدس سرہ) کے جہاد کی اساس و بنیاد قرآن کریم کی متعدد آیات ہیں اور قرآن کے مطابق یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔
ممکن ہے کہ یہودیوں میں اچھے لوگ بھی ہوں اور قرآن میں البتہ لفظ “بنی اسرائیل” کے ضمن میں ان میں سے کچھ کی تعریف ہوئی ہے، لیکن وہ یہودی جو آج صہیونی کہلاتے ہیں، وہ جو بھی ہیں شر مطلق ہیں، حق کے ساتھ مجسم عداوت ہیں۔ اور امریکہ اور یہودی ریاست کی فنا اور نابودی قرآن سے ماخوذ اور مسلمہ اور حتمی امر ہے۔
امام خمینی (قدس سرہ) نے اسلامی تحریک کے شروع میں کپیچولیشن یا امریکہ کے ساتھ مشروط اطاعت گزاری کے معاہدے اور ایران میں یہودی ریاست کے اہلکاروں کی وسیع موجودگی کے خلاف تاریخی خطاب کیا جس کے بعد آپ کو ایران سے جلاوطن کیا گیا اور ۱۴ برس تک جلاوطنی میں گزارنا پڑے۔
یہودی ریاست یا اسرائیل کی فنا ایک قرآنی وعدہ
یہودی ریاست کے زوال کی بنیاد قرآن ہے اور امام خمینی (قدس سرہ) نے جو یقین سے فرمایا کہ اسرائیلی ریاست عنقریب زوال پذیر ہوگی، یا امام خامنہ ای (دام ظلہ) نے فرمایا کہ یہ ریاست آئندہ ۲۵ برس کو نہیں دیکھ سکے گی، یہ نہ پیش گوئی ہے اور نہ ہی غیب گوئی بلکہ یہ قرآن کے متن سے ماخوذ الہی وعدہ ہے۔
اللہ تعالی بشارت دیتا ہے کہ یہ اس ذات باری تعالی کا حقِ مطلق ہے اور عالم وجود حق کی بنیاد پر تخلیق ہوا ہے اور اس عالم کے تمام اجزاء و اعضاء اللہ کی افواج ہیں، چنانچہ جب بھی کوئی باطل قوت ظہور پذیر ہوگی، عالم وجود کا فطری نظام اس کے خلاف سرگرم عمل ہوجاتا ہے اور اس کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ چنانچہ اسرائیلی ریاست کی فنا ایک حتمی امر ہے۔ قرآن تاریخ کی کتاب نہیں ہے بلکہ تاریخ انسانی کو اپنے قارئین کے لئے دہراتا ہے۔ قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ امریکہ، یہودی ریاست اور مستکبر مغرب کے مستقبل کو بیان کیا ہے۔
مغرب، یہودی ریاست اور ان کے علاقائی چیلوں کی بھونڈی سازشیں ان کا اپنا گریبان پکڑیں گی؛ تاریخ نے واضح کیا ہے کہ تمام ظالم و جابر اور باطل قوتیں آخر کار فنا ہوچکی ہیں، چنگیز سے لے کر محمد رضا پہلوی تک، اور فرعون سے لے کر آج کے زمانے کے فراعنہ تک؛۔۔۔ اور اللہ کی سنت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے، اور باطل کو مٹ جانا ہے؛ کیا آج کے زمانے میں اسرائیل نامی ریاست سے بڑھ کر بھی کوئی باطل ریاست ہے، وہ بھی ایسی ریاست جو غصب اور جرائم پیشگی کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے؟
پچیس سال کا عرصہ، زیادہ سے زیادہ حد مہلت ہے
یہ جو امام خامنہ ای (دام ظلہ) نے فرمایا ہے کہ یہودی ریاست ۲۵ سال کا عرصہ نہیں دیکھ سکے گی، تو یہ اس ریاست کی بقاء کے لئے مفروضہ زیادہ سے زیادہ مہلت کی حد ہے۔ یقینا یہودی ریاست زوال پذیر ہے، اور ہم آج ہم اس کے آقاؤں کے روزافزوں تنزلی کو دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ مستقبل کا تعلق اسلام اور حق و حقیقت سے ہے۔ جب میخائیل گورباچوف سوویت اتحاد کی چوٹی پر کریملن ہاؤس کے تخت پر براجماں تھے، تو ہمارے امام (قدس سرہ) نے جماران کی گلیوں سے مارکسزم کی فنا کی خبر دی تھی، وہی امام جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل، اور ان کے تمام کٹھ پتلیوں اور غلاموں کی نابودی کی بھی خبر دی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ اس طرح کی بین الاقوامی نشستیں اور بین الاقوامی انعامات کا اعلان، اسرائیل کے زوال اور فنا میں مثبت کردار ادا کریں۔
واضح رہے کہ “مزاحمت و فلسطین کے حامی قلمکاروں اور ناشرین کی انجمن” کا سیمینار نومبر سنہ ۲۰۱۸ع میں منعقد ہوا تھا۔
تبصرہ کریں