افغانستان میں امریکہ کا ذلت آمیز فرار/ اسرائیلی ریاست افغان صورت حال سے فکرمند، کیوں؟

کیا افغانستان پر 20 سال تک قبضہ جمانے والے امریکہ کی شکست اور مغربی جمہوریت کی بنیاد پر اس ملک میں ملت سازی میں ناکامی، کیا واشنگٹن کی بین الاقوامی پوزیشن کو متاثر کرے گی؟ اور دوسرا سوال یہ کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لئے کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

فاران؛ ایک یہودی-صہیونی انسٹی ٹیوٹ نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کی پریشان حال اور غیرمنظم، ذلیلانہ پسپائی، اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ مغربی جمہوریت کے طرز پر “ملت سازی” (Nation Building) کی امریکی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے اور موت کے خوف سے بھاگنے والے والے افغانی باشندوں کی تصویروں نے عالمی برادری پر لرزہ طاری کیا۔
صہیونی ریاست کی قومی سلامتی کے مطالعات کے ادارے نے اپنے دو سینئر اراکین کی “شیمون اشتائن” (Shimon Stein) اور “ایلداد شاویت” (Eldad Shavit) کی لکھی ہوئی رپورٹ شائع کی ہے جس کی ابتداء میں سوال لکھا گیا ہے: سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان پر 20 سال تک قبضہ جمانے والے امریکہ کی شکست اور مغربی جمہوریت کی بنیاد پر اس ملک میں ملت سازی میں ناکامی، کیا واشنگٹن کی بین الاقوامی پوزیشن کو متاثر کرے گی؟ اور دوسرا سوال یہ کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لئے کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
محترم قارئین و صارفین! رپورٹ کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
امریکی چہرہ بگڑ گیا ہے اور امریکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے
افغانستان سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کی پریشان حال پسپائی، افغانستان کی حکومت اور فوج کی شکست و ریخت اور طالبان کے قبضے کا تلخ ذائقہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مغربی جمہوریت کے اصولوں پر مبنی ملت سازی (Nation Building) کی کوششوں میں ناکام ہوچکا ہے۔ اگر امریکہ ابتدائی مقصد کے حصول کے فورا بعد افغانستان کو چھوڑ جاتا اور اس ملک کو نئی شکل دینے کی کوشش نہ کرتا، آج اس کو پسپائی کے عمل کی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرتا اور پسپائی نیز ایک بار پھر افغانستان کی دہشت گردی برآمد کرنے والے اڈے میں تبدیلی کی وجہ سے اسے اتنی شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔
امریکہ کا چہرہ بگڑ گیا ہے اور کم از کم مختصر مدت کے لئے اس کی ساکھ مجروح ہوچکی ہے اور اب مختلف بین الاقوامی کھلاڑی اس صورت حال سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے باوجود، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کیا ایک طویل المدت تزویرتی چیلنج میں تبدیل ہوتی ہے یا نہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کو یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ مسئلہ دہشت گرد اسلامی تنظیموں نیز علاقے سے امریکہ کے نکال باہر کرنے کی ایرانی عزم و ارادے پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ علاوہ ازیں – علاقے میں امریکی افواج کی تعیناتی میں تبدیلیوں کے پیش نظر – مشرق وسطی میں اسرائیلی کردار کے بارے امریکی نقطہ نظر بھی اسرائیل کے لئے بہت اہم ہے۔
امریکہ کو غیرمتوقع صورت حال کا سامنا کرکے افغانستان سے بھاگنا پڑا
افغانستان سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کا منصوبہ بند انخلاء ایسی صورت حال میں جاری ہے کہ طالبان نیز نہایت تیزرفتاری سے ملک پر قبضہ کرلیا ہے اور افغان راہنما اور سب سے اہم افغان فوج – جس کو تربیت دینے اور لیس کرنے پر کئی برسوں کے دوران میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے تھے – نے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔
تیزی سے، بہت پریشان حالی کی کیفیت میں رونما ہونے والے واقعات نے امریکہ کے اندر اور باہر متعدد سوالات کو جنم دیا، یوں کہ کیا ان واقعات کے وقوع پذیری ناگزیر تھی یا نہیں بلکہ یہ حالات انتظام و انصرام اور سب سے اہم، انٹیلی جنس کے شعبے میں، ایک بڑی کوتاہی کی عکاسی کرتے ہیں؟ یہ سوال، جولائی کی ابتداء میں جو بائیڈن کے فیصلہ کن موقف کے پیش نظر، بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ افغان فوج کامیابی کے ساتھ طالبان کا مقابلہ کرے گی، جس کے نتیجے میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کا امکان کمزور پڑ جاتا ہے!
حتی اگر یہ سب ایک معلوماتی حوالے سے ایک ناگہانی اور خلاف توقع قضیہ بھی قرار دیا جائے، پھر بھی امریکی حکومت کے پاس کافی فرصت تھی کہ وہ علامتی اور باضابطہ اعلان شدہ تاریخ – 11 ستمبر 2021 – تک امریکی اور نیٹو افواج کے منظم انخلاء کے لئے تیاری کرے اور ان افغانوں کو بروقت ملک سے نکال دے جنہوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ساتھ تعاون کیا تھا اور یوں وہ اس تصور کے ابھرنے کا سدباب کرے کہ “مغرب کے معاون افغان شہری افغانستان سے فرار ہورہے ہیں”۔ امریکہ افغانستان سے انخلاء اور “انخلاء کے ایک روز بعد” کے لئے ماحول سازی کے ایک حصے کے سانچے میں، پاکستان، چین، بھارت، روس اور ترکی جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ ایک علاقائی اقدام کا اہتمام کرسکتا تھا اور یوں وہ افغانستان کے عدم استحکام اور ایک بار پھر وہاں دہشت گردی برآمد کرنے والے اڈے بننے کے خطرے کو کافی حد تک کم کرسکتا تھا اور امریکہ کے انخلاء سے پیدا ہونے والے افرادی، سیاسی اور معاشی عواقب اور دشواریوں کا سامنے کرنے کی تیاری کرسکتا تھا۔
امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف تک نہ پہنچ سکا
پسپائی پر منتج ہونے والے آخری ایام میں، افغانستان کے راہنماؤں اور طالبان کے رویوں کا سامنا کرنے کے لئے، امریکہ کی عدم آمادگی کے بارے میں متعدد سوالات اٹھے ہیں۔ ایک حیاتی اور کلیدی سوال کا تعلق اس مسئلے سے تعلق رکھتا ہے کہ افغانستان میں امریکی “مہم جوئی” جو 20 سال تک طویل ہوئی، کس حد تک اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکی ہے؟ امریکہ نے [[بظاہر]] القاعدہ پر کاری ضرب لگانے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کی اور اس کا ثانوی ہدف (!!) افغانستان میں مغربی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق، “ملت سازی” کا عمل تھا۔ پہلا ہدف کافی حد تک حاصل ہوچکا (منجملہ یہ کہ سنہ 2011 میں بن لادن کا خاتمہ کیا گیا)، لیکن امریکہ ثانوی ہدف (!!) حاصل کرنے میں ناکام رہا جیسا کہ عراق میں بھی ان ہی دلائل کی بنا پر ایسا کرنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ ناکامی نمایاں کرتی ہے کہ ان معاشروں پر – اقدار پر مبنی سیاسی اور انتظامی – تبدیلیاں تھونپنے کے لئے طاقت کا استعمال نہایت بیہودہ عمل ہے، جو مختصر مدت میں ایسی تبدیلیاں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر امریکہ ابتدائی ہدف کے حصول کے فورا بعد افغانستان کو ترک کرتا اور اس ملک کو نئی شکل دینے کی کوشش نہ کرتا، آج پسپا ہونے پر اس کو خفت و شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔

 

جاری