فاران: مختلف مضامین کا مطالعہ اور بین الاقوامی و علاقائی میڈیا کی اوپن سورس انٹیلیجنس (OSINT) کے ذریعے شام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ شام میں جاری بین الاقوامی تنازعہ قطر-یورپ گیس پائپ لائن سے غیر متعلق نہیں ہے۔ یہ ایک منصوبہ ہے جس پر کئی سالوں سے ترکی کے کردار کے ساتھ عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں قطر کے مفادات شامل ہیں، جو بشار الاسد کا دیرینہ دشمن ہے، اور روس کی گیس برآمدات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔
یورپ کا سخت موسم سرما اور بائیڈن کی دھمکی
روس کے یوکرین پر حملے سے پہلے، بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا (یعنی اپنے مفادات کا دفاع کیا)، تو اسے اپنی گیس برآمدات کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس استعماری رہنما نے جب یورپ کی گیس کی تلافی کے بارے میں سوال کیا گیا تو کہا: “ہم جانتے ہیں کہ گیس کہاں سے حاصل کرنی ہے۔” نورڈ اسٹریم پائپ لائن، جو روس کی 50 فیصد گیس برآمدات کو شامل کرتی ہے، یوکرین پر روسی حملے کے بعد تباہ ہو گئی، جس سے سرمایہ کار کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ اب یورپ کے باغ کو سخت سردیوں کا سامنا ہے، جہاں لوگ لکڑیاں جلانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ترکی کا چوراہا اور اردگان کی چالاکیاں
ترکی دنیا کے چوک پر واقع ہے۔ یہ ملک عملی طور پر یورپ، ایشیا، عرب دنیا، مزاحمتی محاذ سے متعلقہ ممالک ، نیٹو، اور شنگھائی تعاون تنظیم سے جڑا ہوا ہے۔ اردگان نے محض نومبر کے مہینے میں ان تمام خطوں کے دورے کیے۔ ترکی عثمانی سلطنت کے خواب بھی دیکھ رہا ہے۔ یہ وہ ترکی ہے جو ایران کے راستے ترکمانستان سے گیس حاصل کر کے توانائی کا مرکز بننا چاہتا تھا، لیکن روحانی حکومت کے دور میں اس منصوبے کی مخالفت کی گئی۔ جلد ہی ترکی نے بحیرہ قزوین کے ذریعے ترک-ترکمان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو سنجیدگی سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، لیکن آرمینیا اس رابطے میں رکاوٹ بن گیا۔
آرمینیا اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان زنگزور کاریڈور کے قیام کے لیے جنگ، جس میں ترکی کی مداخلت بھی شامل تھی، ایران اور روس جیسے گیس پیدا کرنے والے دو ممالک کی بروقت شمولیت سے ختم ہوئی۔ ان حالات میں، قطر سے یورپ تک گیس کی پرانی پائپ لائن کے منصوبے کی بحالی امریکی ایجنڈے میں شامل ہوگئی۔ یورپی ممالک یوکرین میں قیمت چکانے سے تنگ آ چکے ہیں۔
“قطر: اسد کا دیرینہ دشمن”
ایران کے بعد قطر دنیا کا دوسرا بڑا گیس ذخائر رکھنے والا ملک ہے۔ قطر مشہور میڈیا چینل الجزیرہ کا مالک ہے۔ اس ملک نے اپنے میڈیا کے ذریعے دنیا کو غزہ کے بارے میں آگاہ کیا اور کبھی عرب دنیا کے مقبول ترین میڈیا کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ قطر حماس کا دوست ہے۔ حماس اور قطر دونوں اہلِ سنت ہیں۔ قطر، عرب ہونے کے باوجود، ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔
ایک مضمون میں پڑھا کہ حماس، جسے قطر کی مکمل حمایت حاصل ہے، اس وقت جب جنرل قاسم سلیمانی کے ذریعے مزاحمتی محاذ کے علاقائی ارکان کے ساتھ اس کا اتحاد قائم نہیں ہوا تھا، شام میں مرکزی حکومت کے خلاف مخالفین کے ساتھ مل کر بشار الاسد کے خلاف لڑ رہا تھا۔ جی ہاں، حماس بشار الاسد کے خلاف تھا، وہی بشار الاسد جس نے قطر-ترکی گیس پائپ لائن کو بند کر دیا تھا۔ یہ وہی گیس پائپ لائن ہے جو ایران کو تنہا کرتی اور یورپ کو فائدہ پہنچاتی۔ یورپ، جو بشار الاسد پر ہر طرح کی پابندیاں لگا چکا تھا۔
حافظ الاسد نے بھی صدام کے ایران پر حملے کے دوران یکطرفہ طور پر عراق کی گیس پائپ لائن بند کر دی تھی۔ وہی صدام جو آخر کار سرنگوں ہو گیا۔
شام میں یورپ کو گیس چاہیے ترکی اور قطر کو پیسہ اور ایران کو امریکہ کا اضمحلال
یہ سوال ابھی تک واضح نہیں کہ آیا الجولانی کی امریکی حمایت یافتہ بغاوت کے ذریعے شام کی عربی اور عوامی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوگی یا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو قطر، سعودی عرب، اردن، ترکی، اور بلغاریہ کے راستے گزرنے والی گیس پائپ لائن کو دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو یورپ کو توانائی کی فراہمی اور یوکرین کی صورتحال پر اس کے اثرات شدید منفی ہوں گے۔
کیا یورپ یوکرین کو قربان کرے گا اور امریکہ سے رخ موڑ کر روس کے ساتھ اپنے مفادات کو ہم آہنگ کرے گا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج مکرون نے روس کو ایک تجویز دی ہے کہ یوکرین کی غیر موجودگی میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
بہرحال، اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات الجولانی اور امریکہ کی پالیسیوں کی شکست میں ہیں۔
نوٹ: قطر-یورپ گیس پائپ لائن شام کے راستے بھی گزرتی ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں