امریکہ میں اسرائیل مخالف طلبہ تحریک
فاران: امریکی طلباء کی تحریک نے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات بالخصوص غزہ کے عوام کی نسل کشی اور فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے امریکہ کی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں مظاہرے، اجتماعات اور دھرنے دیئے گئے، جس نے امریکہ اور امریکی حکام کے خلاف ایک منفی تحریک کو جنم دیا۔ امریکی حکومت کی طرف سے ردعمل میں اس ملک کے حکام اپنے بیانات میں اس تحریک کو دوسرے ممالک بالخصوص ایران سے جوڑنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان Karin Jean-Pierre نے اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ میں غزہ جنگ سے متعلق مظاہروں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان Karin Jean-Pierre نے اس رویئے کو ناقابل قبول قراردیا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ امریکی جمہوریت کے لیے آزادی اظہار ضروری ہے، لیکن حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو غیر ملکی اثر و رسوخ کی کارروائیوں سے خبردار کرے۔
یہ انتباہ امریکہ کے قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر اپریل ہینس کے ایران کی سائبر سرگرمیوں اور غزہ جنگ میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں ایرانی عناصر کے غلط استعمال کے دعوے کے چند گھنٹے بعد دیا گیا ہے۔ امریکہ کے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے ایران سے منسلک بعض سائبر آپریٹو کی نشاندہی کی ہے، جو آن لائن ایکٹوسٹ کے طور پر، احتجاج کی حوصلہ افزائی کرنے اور یہاں تک کہ (غزہ جنگ کے خلاف) مظاہرین کو مالی مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران تیزی اور جارحانہ انداز سے اثر و رسوخ پیدا کرنے اور ہمارے جمہوری اداروں پر اعتماد کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکام، جنہیں غزہ کی جنگ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف امریکی نوجوانوں بالخصوص اس ملک کے طلباء کے خلاف احتجاج کے طور پر امریکہ میں بہت وسیع اور بے مثال مظاہروں کا سامنا ہے، اس معاملے کی حقیقت پسندانہ تحقیقات سے توجہ ہٹاتے ہوئے ایران پر ان مظاہروں کے اکسانے کا الزام لگانا چاہتے ہیں۔ ہینز نے ایک عجیب و غریب بیان میں اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران غزہ کی جنگ کے بارے میں جاری مظاہروں میں “موقع پرستی” کی تلاش میں ہے۔ امریکہ میں اسرائیل مخالف طلبہ تحریک کے قیام کی معروضی وجوہات کی وجہ سے ایران کو اس تحریک کے بانی کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تحریک کی مختلف جہتوں کا ایک مختصر جائزہ لینے سے بھی یہ الزام بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔ البتہ اسے امریکی یونیورسٹیوں اور کئی مغربی ممالک میں پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
21 ویں صدی مواصلات، معلومات، سائبر اسپیس اور سوشل نیٹ ورکس کی صدی ہے، مواصلات کے میدان میں نئی ٹیکنالوجیز اور اقدامات کی وجہ سے خبروں اور میڈیا کی اجارہ داری مغرب خصوصاً امریکہ کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ آج میڈیا کی رسائی اور سہولیات کی سطح اور وسعت کے ساتھ ساتھ سائبر اسپیس میں سرگرمیوں کے مطابق مختلف ممالک دنیا میں وسیع سطح پر علاقائی اور عالمی ترقی پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے قابل ہیں۔ قدرتی طور پر کمیونیکیشن اور ورچوئل اسپیس کے میدان میں شاندار کامیابیوں کی وجہ سے ایران سائبر اور سیٹلائٹ اسپیس میں اپنے میڈیا کے ذریعے امریکہ سمیت دنیا کے مختلف اداروں میں اپنے خیالات اور پیغامات پھیلانے میں کامیاب ہو رہا ہے اور وہ مسلسل اپنی خبریں اور رپورٹیں بھیج رہا ہے۔ اسلامی انقلاب کے پیغام بالخصوص رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے موقف اور نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی نوجوانوں سمیت متعدد ممالک کے لوگ ایرانی ذرائع ابلاغ اور پیغامات پر توجہ دیتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا حالیہ خط، جو امریکی طلباء کے نام تھا اور 30 مئی 2024ء کو شائع ہوا، امریکہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ اس کے بعض جرائم کا اعتراف اور وضاحت ہے۔ امریکہ کے اندر ابھرنے والی اس تحریک کے ذریعے امریکی طلباء فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور غزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔ اس تحریک کے قیام میں ایران کا کوئی کردار نہیں تھا اور وہ صرف فلسطین کے کاز کی حمایت کی سمت میں اپنی حمایت کا اظہار کرتا ہے، جس کی وجہ سے مغربی نوجوانوں بالخصوص امریکیوں میں فلسطینیوں کے بارے میں ہمدردی کا رجحان بڑھا ہے۔ اصل مسئلہ اسرائیل کے وہ غیر انسانی جرائم ہیں، جن کی وجہ سے امریکی طلباء صیہونی حکومت سے بیزاری اور نفرت کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینی عوام کی مخلصانہ حمایت کرنے والے طلباء کے نام اپنے خط میں ان طلباء کے صیہونی مخالف مظاہروں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فلسطینی عوام اور مزاحمتی بلاک کی حمایت کا حصہ قرار دیا۔ مزاحمتی محاذ اور حساس مغربی ایشیاء کے حالات اور تقدیر کی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ میں فلسطینیوں کی حامی تحریک کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اب آپ تاریخ کی صحیح سمت پر کھڑے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ میں فلسطین کی حمایت میں طلبہ کا احتجاج اس ملک کے سیاسی اور سماجی نظام میں ایک نیا رجحان ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مخالفت میں وسیع اور بے مثال مظاہروں نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امریکہ کی نوجوان نسل کے رویے میں بنیادی اور ضروری تبدیلی کو اجاگر کیا ہے۔
اب یہ سوال زیادہ سے زیادہ اٹھایا جا رہا ہے کہ نوجوان نسل، یا زیادہ واضح طور پر، “جنریشن زیڈ” اپنے باپوں کے برعکس، فلسطین کی حمایت کیوں کر رہی ہے اور صیہونی حکومت سے کیوں نفرت کرتی ہے؟ امریکہ میں صیہونی لابیوں کے قریبی عہدیداروں اور اداروں نے تل ابیب کے حکام کے ساتھ مل کر طلبہ کے مظاہروں اور احتجاج کو امریکہ کی نئی نسل کے فریب اور انحراف کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مزاحمت کے حامیوں کو سکیورٹی فورسز کی مدد سے نمٹا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکی ادارے اور اعلیٰ امریکی سیاسی اور انٹیلی جنس حکام جیسے کہ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر اپریل ہینس یا وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرن جین پیئر ایران پر الزام لگا کر اس مسئلہ کو حساس اور سکیورٹی کا مسئلہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ اسرائیل مخالف اس طلبہ تحریک کو ایران سے جوڑ کر نہ صرف ایرانو فوبیا کے دیرینہ پروّپیگنڈہ سے فائدہ اٹھائیں بلکہ یونیورسٹی طلباء کو ملک کے لئے خطرہ قرار دیکر قومی سلامتی کے نام پر ان کے خلاف سخت کارروائی انجام دیں۔
تبصرہ کریں