امریکہ کیجانب سے انصاراللہ کیلئے اعزاز
فاران: امریکی حکومت نے ایک بار پھر یمن کی مجاہد تنظیم انصار اللہ کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ 17 جنوری 2024ء کو امریکہ نے یمن کی تحریک انصار اللہ کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے اور امریکی فیصلہ کے مطابق یہ فیصلہ 30 دن کے اندر نافذ العمل ہو جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ یہ فیصلہ ایسی صورت حال میں لیا گیا ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ نے فروری 2021ء میں انصار اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔ یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کے ترجمان محمد عبدالسلام نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہمارا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں ڈال کر سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بحر احمر میں جو کچھ کیا ہے، وہ غزہ کی جنگ روکنے کے لئے ایک قسم کا دباؤ ہے اور امریکہ کا اقدام فلسطینیوں کی حمایت کے لئے ہمارے عزم محکم کو توڑ نہيں سکتا۔
محمد عبدالسلام نے کہا کہ ہمارے خلاف واشنگٹن کے فیصلے کا کوئی نتیجہ نہيں نکلے گا اور ہم ملت فلسطین کی حمایت کرنے کے اپنے موقف سے پیچھے نہيں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا حالیہ فیصلہ ہمیں ملت فلسطین کی حمایت کے عزم کو مزید مضبوط بنائے گا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ نے تین سال بعد انصار اللہ کو دوبارہ دہشت گردوں کی فہرست میں کیوں ڈالا ہے۔؟ بلا شبہ امریکہ کا یہ اقدام غزہ میں صیہونی حکومت کی حمایت کا ایک تسلسل ہے۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے آغاز اور تل ابیب حکومت کے بمبار طیاروں کی جانب سے اس علاقے کے رہائشی، تعلیمی اور طبی علاقوں پر نہ رکنے والے بمباری کے بعد ایک ایسے عالم میں جب تمام عرب ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ چکا تھا، یمنیوں نے ایک ایکشن آپریشن میں ایسے اسرائیلی بحری جہازوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، جو مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی تقویت کے لئے جا رہے تھے۔
یمنیوں نے اعلان کیا کہ جب تک غزہ کے خلاف جنگ جاری رہے گی، وہ بحری جہازوں کو مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یمنیوں کا یہ سنگین اور حسابی ردعمل صیہونی حکومت کے غم و غصے کا باعث بنا۔ یہ حکومت جو اب تک غزہ میں اپنے فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی، اس نے امریکہ سے یمنیوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا۔ اس سلسلے میں امریکہ نے پہلے کئی ممالک کی شمولیت سے ایک اتحاد بنایا اور پھر گذشتہ جمعہ کو یمن پر حملے کیے، ایسے حملے جو یمنیوں کو بحری جہازوں پر حملے کرنے سے باز نہ رکھ سکے۔ اس لیے واشنگٹن کی جھنجھلاہٹ انصار اللہ کو دوبارہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا باعث بنی۔ اس لیے یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یمن کی تحریک انصار اللہ کو دہشت گرد قرار دینا صیہونی غاصب حکومت کی اہم درخواست اور واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان باہمی بات چیت کا نتیجہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر انصار اللہ بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کے خلاف حملے بند کر دے تو وہ اس فیصلے کو منسوخ کر دے گا۔ اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے انصار اللہ نے امریکہ کے اس فیصلے کے ردعمل میں تاکید کی ہے کہ امریکہ کا فیصلہ سیاسی ہے اور فلسطینی عوام کی حمایت کے حوالے سے ہمارا موقف اٹل ہے۔ یمن کی انصار اللہ کے ترجمان “محمد عبدالسلام” نے اس سلسلے میں کہا: “ہم نے بحیرہ احمر میں جو کچھ کیا، وہ غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے ایک طرح کا دباؤ تھا اور امریکہ کا یہ اقدام ہمیں فلسطینیوں کی حمایت سے باز نہیں رکھ سکے گا۔ ہمارے خلاف واشنگٹن کا یہ فیصلہ موثر نہیں ہے اور ہم فلسطینی قوم کی حمایت میں اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، بلکہ حالیہ امریکی فیصلہ فلسطینیوں کی حمایت کے حوالے سے مزید پرعزم بنا دے گا۔”
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے انصاراللہ کے خلاف امریکی فیصلے پر کھلی تنقید کی ہے اور اسے عام شہریوں کے خلاف فیصلہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا ہے کہ “امریکہ کا یمن کے انصار اللہ گروپ کو نام نہاد دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں ڈالنے کا فیصلہ کسی ایک ملک کا فیصلہ تو ہوسکتا ہے، اقوام متحدہ کا فیصلہ ہرگز نہیں ہے۔” دجارک نے کہا: “یمن کا غذائی سامان کی درآمد اور انسانی امداد پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اقوام متحدہ غیر جانبداری کے اصول کی بنیاد پر یمنی عوام کی مدد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ پابندیاں اکثر عام شہریوں کو متاثر کرتی ہیں۔”
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ انصاراللہ تحریک کے خلاف امریکہ کی حالیہ کارروائی سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ واشنگٹن غزہ کے مظلوم عوام کی نسل کشی میں صیہونی حکومت کا دیرینہ ساتھی ہے اور صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے وہ ایسے فیصلے بھی لے لیتا ہے، جو خود امریکہ کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے یمن کے مجاہدین نے اس امریکی فیصلے پر ردعمل دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے لئے فخر کا مقام ہے کہ غزہ کی حمایت کے جرم میں ہمیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
تبصرہ کریں