فاران: قدرت نے انسان کو ”احسن تقویم“ سے مزین کرکے خلق کیا ہے اور اس کے وجود میں چار بڑی قوتیں بھی عطا کر دیں، جن میں قوت عاقلہ، قوت غاصبہ، قوت دافعہ اور قوت شہویہ شامل ہیں۔ ارتقائے انسانی کا وجود اور کائنات میں زندگی کا پہیہ ان چار قوتوں کے سہارے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ بعض دفعہ انسان اپنی قوت عاقلہ کو وسائل بڑھانے کیلئے استعمال کرتا ہے اور اپنی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ قوت عاقلہ کے ذریعے وسائل کی فراوانی کو حاصل کرتا ہے اور جب وسائل زیادہ ہو جاتے ہیں تو اپنی سطح کے لوگوں کو اردگرد اکٹھا کر لیتا ہے۔ سب سے بڑی بدبختی اس وقت شروع ہوتی ہے، جب وہ وسائل پر قابض ہو کر قوت حاکمہ حاصل کرنے کی ابتدا کرتا ہے اور ارد گرد کے خول، تکبر اور فرعونی صفت کی وجہ سے وہ حریم اقتدار کو پھلانگ کر اپنی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے اچھے اور بُرے فیصلے کرتا ہے۔ ان دنوں یہی صورتحال امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے۔
اپنی عجیب حرکات کی وجہ شہرت رکھنے والا امریکی صدر ابتداً اپنے گذشتہ دور حکومتی 2017ء تا 2021ء میں بھی اپنی فرعونیت کی وجہ سے دنیا میں انتشار کا باعث بنا رہا لیکن امریکہ کے 47ویں صدر بننے کی منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنی خواہشات کو ایک نئے رخ پر الیکشن مہم میں ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ دنیا میں جنگوں کیخلاف اور امن کا داعی ہے۔ لیکن جب کرسی اقتدار پر براجمان ہوا تو اس کی “ذہنی فکری برادری” یعنی اس کی تشکیل کردہ کابینہ کے لوگوں نے اسے سخت اقدامات کی طرف اکسایا۔ جن میں طوفان الاقصیٰ آپریشن میں حماس کے مجاہدین کی کامیابی کو ایک نئے رنگ میں ناکام بنانے کی کوشش، اسرائیلی صیہونی ریاست کی انٹیلی جینس ناکامی پر پردہ ڈالنے، اسرائیلی عوام کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے انہیں بیوقوف بنانے اور کھنڈرات پر مشتمل تباہ شدہ غزہ کی پٹی کو خالی کروا کر اردن اور مصر میں منتقل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
مجھے بڑے دکھ کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتنی بڑی طاقت امریکہ اور عالمی اقتدار پر مسلط ڈونلڈ ٹرمپ نے مضحکہ خیز اعلان کرکے اپنی حکومت کی ناکامی کی ابتدا کر دی ہے۔ اگر امریکی صدر میں عالمی قوانین اور انسانی اخلاقی اقدار کا ذرہ سا بھی احترام ہوتا تو چاہیئے تو یہ تھا کہ ان فلسطینی سکولوں، ہسپتالوں، مارکیٹوں اور لوگوں کے گھروں کو مسلسل بمباری میں تباہ کرنے والے اسرائیل کو سزا دیتا لیکن ڈھٹائی اور شیطانی صفت کی بنا پرڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا میں ایک نئے مسئلے کو پیدا کرنے کی ابتدا کی ہے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ فلسطینی عوام کی دل جوئی کی جاتی، اسرائیلی جارحیت پر مظلوموں سے معذرت کی جاتی، عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرکے نیتن یاہو، اس کی کابینہ کو جنگی جرائم پر سزا دی جاتی، قابض صیہونی ریاست سے مقبوضہ علاقوں کو خالی کروایا جاتا، اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے، ان سے نقصانات کا معاوضہ وصول کرنے کا اعلان کیا جاتا توبین الاقوامی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی جاتی۔
1948ء میں یہودیوں نے ایک سازش کے تحت فلسطینی زمینوں کو ہتھیانے کا سلسلہ شروع کیا تو اسی دن سے فلسطینی اپنے علاقے کو واپس لینے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل بھی یہ جانتے ہیں کہ اب حالات ایسے نہیں کہ فلسطینیوں کو فلسطین اور حماس کو غزہ سے نکال کر اردن اور مصر میں آباد کیا جا سکے، امریکی صدر کی اس تباہ کن سوچ کو دنیا میں کسی نے بھی پسند نہیں کیا بلکہ مذمت کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ سعودی عرب کے پاس رقبہ بہت زیادہ اور مملکت وسیع ہے، فلسطینیوں کو اپنے ملک میں جگہ دے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کھل کر اس احمقانہ امریکی اور اسرائیلی تجویز کی مخالفت میں متحد ہو کر اس فارمولے کو نامنظور کریں۔
چاہیئے تو یہ تھا کہ جیسے ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن کیساتھ بات کرکے یوکرائن کی جنگ ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات ہوچکی ہے، جس میں یوکرائن جنگ بندی کرانے پر اتفاق ہوگیا ہے، مگر کوئی یوکرائنی نمائندہ اس اہم ملاقات میں شامل نہیں تھا۔ امکان کا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دونوں بڑی قوتوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان یہ ملاقات روسی صدر پیوٹن اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کیلئے راہ ہموار کرے گی۔ علاوہ ازیں میڈیا میں یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ امریکہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کیلئے حملے کی بجائے مذاکرات کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ اپنے دور اقتدار میں مذاکرات کے بعد ایران پر اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے کا بھی اعلان کرے۔
ہم تو پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایران کی اسلامی قیادت ولی امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات پر خبردار کیا ہے، لیکن صدر اسلامی جمہوریہ ایران مسعود پزشکیان مذاکرات کا مشروط عندیہ دے چکے ہیں، بلکہ وہ یورپی ممالک پر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں، لیکن امریکہ پہلے مذاکرات کا ماحول پیدا کرے، ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹائے، یہاں تک بھی اطلاع ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان بھی ایران اور امریکہ کے درمیان ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیلئے سرگرم ہیں، اگر ایسا ہو جائے تو یہ اسرائیلی صیہونی حکومت کی بڑی سفارتی ناکامی ہوگی، کیونکہ نیتن یاہو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کیلئے مسلسل دباو ڈال رہا ہے، لیکن امریکہ مذاکرات کی طرف راغب نظر آتا ہے۔
یہ واضح رہنا چاہیئے کہ 1948ء سے فلسطینی اپنی سرزمین کی واپسی کیلئے کوشاں ہیں۔ جس کیلئے وہ لاکھوں قربانیاں دے چکے ہیں، اپنی سرزمین کی واگزاری کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کا اردن، مصر اور سعودی عرب میں فلسطینی عوام کو بسانے کی تجویز کی مخالفت میں خط قابل تعریف ہے۔ میری نظروں سے فلسطین پر جو اب تک موقف گزرا ہے، شاید سعودی عرب کی طرف سے سخت ترین ردعمل انہی کا تصور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کو بسانا چاہتے ہیں تو جفا، حائفہ اور دیگر شہروں جن پر قبضہ اسرائیل نے کیا ہے، وہاں ان کو بسائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سعودی عرب اور ایران فلسطین پر ایک موقف اختیار کریں اور باقی اسلامی دنیا بھی ان کے پیچھے ہو تو امت مسلمہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کر لے گی۔
تبصرہ کریں