انصاراللہ یمن کی حالیہ فوجی کارروائی اور اسکی اہمیت
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 25 مارچ کی رات انصاراللہ یمن نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں “محاصرہ توڑ 3” فوجی آپریشن کی خبر دی گئی تھی۔ اس بڑی فوجی کاروائی میں یمن آرمی اور انصاراللہ یمن نے ڈرون طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے سعودی عرب کے 18 حساس فوجی اور اقتصادی مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ بیانیے کے مطابق مختلف مرحلوں میں سعودی عرب کی تیل کی کمپنی آرامکو کی تنصیبات کو جدہ میں نشانہ بنایا گیا جبکہ ریاض میں بھی کروز میزائلوں سے راس التنورہ اور رابغ آئل ریفائنریوں پر حملہ کیا گیا۔ اسی طرح نجران اور جیزان میں بھی آرامکو کمپنی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس فوجی کاروائی کی وسعت اور اہمیت کے پیش نظر جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
راس التنورہ
راس التنورہ میں سعودی عرب کی آئل ریفائنری واقع ہے جسے انصاراللہ یمن نے میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ راس التنورہ آئل فیلڈز سعودی عرب کی دمام بندرگاہ میں واقع ہیں جو خلیج فارس سے قریب ہیں۔ یہ بندرگاہ دنیا میں خام تیل برآمد کرنے کیلئے سب سے بڑی بندرگاہ تصور کی جاتی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی تیل اور تیل سے حاصل مصنوعات کی برآمدات کا 90 فیصد حصہ اسی بندرگاہ سے انجام پاتا ہے۔ یہ بندرگاہ دنیا میں خام تیل برآمد کرنے والی اہم ترین بندرگاہ ہے اور دنیا میں تیل کی کل برآمدات کا 20 فیصد حصہ اسی کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ آئل ریفائنری سعودی عرب کی انرجی کا دل سمجھی جاتی ہے۔
رابغ آئل ریفائنری
یہ ریفائنری تیل صاف کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر پیٹروکیمیکل مصنوعات تیار کرنے کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اس آئل ریفائنری سے حاصل ہونے والی مصنوعات میں پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل اور دیگر مصنوعات شامل ہیں۔
جدہ واٹر پراسیسنگ پلانٹ
سعودی عرب کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل ہے لہذا وہ پینے کی پانی کی ضروریات واٹر پراسیسنگ پلانٹس کے ذریعے پوری کرتا ہے۔ ان پلانٹس پر مشتمل ایک بڑا اور اہم مرکز جدہ کے جنوب میں واقع ہے جہاں روزانہ 9 ارب لیٹر پانی میٹھا کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، اس پراسیسنگ سے حاصل ہونے والی حرارت بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ یوں یہ ایک انتہائی اہم اور اسٹریٹجک مرکز تصور کیا جاتا ہے۔
انصاراللہ یمن کی یہ فوجی کارروائی کئی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کاروائی ٹھیک اسی دن انجام پائی ہے جس دن سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد نے یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا تھا۔ یوں اس حملے میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ یمن جنگ میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے اور یمن آرمی اور انصاراللہ کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن کے اس حملے نے سعودی عرب کو بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں سعودی تیل کمپنی آرامکو کی 70 فیصد پروڈکشن رک گئی ہے اور اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح جدہ میں واقع تیل کے ذخائر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور ایک چوتھائی ذخائر جل کر ختم ہو چکے ہیں۔
فوجی لحاظ سے بھی اس حملے میں یہ پیغام پایا جاتا ہے کہ انصاراللہ یمن دفاعی پوزیشن سے نکل کر جارحانہ پوزیشن اختیار کر چکا ہے۔ یہ تبدیلی گذشتہ کئی سال پہلے سے آ چکی ہے اور فوجی میدان میں انصاراللہ یمن کا پلہ بھاری ہو چکا ہے۔ انصاراللہ یمن کی حالیہ فوجی کاروائی جغرافیائی وسعت کے لحاظ سے بھی بے مثال تھی۔ اس کاروائی میں سعودی عرب کے 18 اہم اور حساس مراکز کو ایک ہی وقت نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے بعض مراکز یمن کی سرحد سے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھے۔ یوں اس کاروائی کے ذریعے سعودی حکمرانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر وہ یمن کے انفرااسٹرکچر کو فضائی حملوں کا نشانہ بنائیں گے تو جواب میں سعودی عرب کے انفرااسٹرکچر کو بھی میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔
انصاراللہ یمن کے حالیہ حملوں نے عالمی سطح پر بھی مساواتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ اکثر یورپی ممالک اور امریکہ روس کے خلاف تیل اور گیس فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ عالمی منڈی میں اس کمی کو سعودی عرب کے تیل سے پورا کر دیں گے۔ انہیں توقع تھی کہ ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بعد سعودی عرب نے جو کردار ادا کیا تھا وہ اب بھی ایسا ہی کردار ادا کرے گا لیکن انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات اور تیل کے ذخائر پر فضائی حملوں نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب سعودی عرب اگر بہت زیادہ ہمت کا مظاہرہ کرے تو تیل کی انہی برآمدات کو برقرار رکھ سکے گا جو وہ عام طور پر انجام دے رہا ہے۔
تبصرہ کریں