اہل فلسطین نے بتا دیا کہ ہم قابل فروخت نہیں

اہل فلسطین نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کا تعلق فلسطین کے فرزندوں سے ہے اور کسی دوسری طاقت کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان کی سودے بازی کرے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پوری دنیا بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے، پھر بھی اسرائیل فلسطین کی زمینوں پر قابض ریاست ہی سمجھا جائے گا۔

فاران: اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بت بنایا گیا۔ یہ بات اس قدر پھیلائی گئی کہ بچپن میں سنی کہانیاں بھی پیچھے رہ گئیں۔ یوں لگتا کہ گویا دنیا بھر کا گیان ایک جگہ سمٹ گیا ہے اور وہ لوگ ہی عقل کل ہیں۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی کی ایسی دھاک بٹھائی گئی کہ عرب ممالک خود سے اسرائیلی کیمپ میں جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ سوچنے والوں نے بار بار دہائی دی، ایسا نہیں ہوتا، ہمارے ایک محقق دوست کے مطابق عربوں نے اسرائیل سے کوئی جنگ لڑی ہی نہیں، سب کچھ پری پلان ہوتا تھا۔ یہ بات یوں بھی سچ لگتی ہے کہ اسرائیل نے 2006ء میں پوری طاقت کے ساتھ لبنان پر حملہ کیا، حزب اللہ ان کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئی اور آخر میں یہ لوگ دم دبا کر بھاگ گئے۔ بہرحال نفسیاتی جنگ ہے اور سوشل میڈیا کا ہتھیار ان کے پاس ہے، وہ ہماری جیسے چاہتے ہیں، ذہن سازی کر دیتے ہیں، ہم اپنی مرضی سے ان کے پلان کے مطابق سوچتے ہیں۔

یہ سب کچھ کل تک تو چلتا رہا مگر کل کچھ سرفروش نکلے اور مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوگئے۔ ان کی حکمت عملی ایسی تھی کہ یہ زمین، فضا اور سمندر تین اطرف سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئے اور اسرائیل کے سکیورٹی سسٹم کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ یہ تحریک آزادی فلسطین کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اتنے اسرائیلی نہیں مارے گئے، جتنے اس ایک حملے میں مارے گئے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق چھ سو اسرائیلی مارے گئے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور سینکڑوں کی حالت تشویش نازک ہے۔ اس سب نے جہاں اسرائیل کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، وہیں امریکہ بھی حیران ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہر سال اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود دہائیوں سے بنایا امیج تباہ و برباد ہوگیا۔

کچھ لوگ یہ مشورے دے رہے ہیں کہ اہل فلسطین کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، اب ردعمل میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں جائیں گی اور اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرسکتا ہے۔ کچھ لوگ تو سادہ ہیں اور کچھ لوگ بڑے تیز ہیں، وہ اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتے، مگر بڑے طریقے سے اہل فلسطین کی مخالفت کر لیتے ہیں۔ سادہ لوح لوگوں کے لیے عرض ہے، کیا اسرائیل ہر سال سینکڑوں فلسطینیوں کو ویسے ہی قتل نہیں کر رہا؟ جہان تک قبضے کی بات ہے تو اسرائیلی فوج اور سیٹلر ہر گزرتے دن دھیرے دھیرے مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن کی وادی اس کی بڑی مثالیں ہیں۔

آپ میڈیا کو فالو کریں تو خبریں یہ ہیں کہ فلسطینیوں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا، جناب ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اہل فلسطین نے اپنی سرزمین پر موجود غیر فلسطینی فورسز پر حملہ کیا ہے۔ انہیں اس بات کی اجازت بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔ اقوام متحدہ یہ طے کرچکی ہے کہ یہ علاقے فلسطین کے ہیں اور اسرائیل غاصب ہے۔ جنگ جنگ ہوتی ہے، کسی بھی بے گناہ اور سویلین کی موت قابل افسوس ہے۔ بہت سی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطینی بچوں اور بزرگ خواتین کی حفاظت کر رہے ہیں اور انہیں امن سے جانے دیا جا رہا ہے۔ اس میں غلطی نہ رہے کہ اسرائیل چیک پوسٹوں پر بڑی تعداد میں خواتین فورسز بھی تعینات تھیں اور ان سے فلسطینیوں کی جنگ ہے۔

محمد بن سلمان بڑے آرام سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل کے قریب ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے دیگر حمایتی بھی مسئلے کو عربوں کے ساتھ حل کرکے اہل فلسطین کا گلا دبانے کے چکر میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اہل فلسطین کی فروخت کی سیل لگی ہے، عرب ممالک اپنا اپنا حصہ لینے کے چکر میں ہیں۔ سب سے زیادہ سعودی عرب کا شاہی خاندان اپنے نام نہاد مفادات کا تحفظ بذریعہ فروخت اہل فلسطین چاہتا ہے۔ انہیں امریکہ اور اتحادیوں نے ان کے تمام مسائل کا حل اسرائیل سے تعلقات میں بتایا کہ اگر تم اسرائیل کی پناہ میں آجاو تو تم تحفظ کے حصار میں داخل ہو جاو گے، پھر تمہارے خلاف اندرونی اور بیرونی ہر طرح کی سازش ناکام بنا دی جائے گی اور تم علاقے میں پولیس مین بن جاو گے۔

بس اسی کی تیاری تھی اور جلد ہی کچھ اعلانات ہونے والے تھے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر عمار خان ناصر بہت خوب لکھا: “جب عرب ممالک فلسطینی مسئلے کو بھول جانے کا اصولی فیصلہ کرچکے ہوں اور علاقائی سیاست کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ تطبیع العلاقات (normalization) کی طرف بڑھنا چاہ رہے ہوں تو فلسطینی تنظیمیں یہی کرسکتی ہیں کہ اپنی بساط کے مطابق اس نارملائزیشن میں رخنہ ڈال کر یہ یاد کروا دیں کہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ عرب چودھریوں کے لیے زیادہ بہتر راستہ یہ ہوگا کہ اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کے بجائے اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے خلاف جائنٹ آپریشن کرکے قصے کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ سیاسی مفاد کے لیے مصر میں ڈکٹیٹر کی پشت پناہی کی جا سکتی ہے، کشمیر کے مسئلے کو او آئی سی کے ایجنڈے سے نکالا جا سکتا ہے اور یمن کو اجاڑا جا سکتا ہے تو فلسطینیوں کا خون زیادہ مقدس تو نہیں۔ بسم اللہ کریں!”

اہل فلسطین نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کا تعلق فلسطین کے فرزندوں سے ہے اور کسی دوسری طاقت کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان کی سودے بازی کرے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پوری دنیا بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے، پھر بھی اسرائیل فلسطین کی زمینوں پر قابض ریاست ہی سمجھا جائے گا۔ انڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے کہ انڈیا ود اسرائیل ہونا بھی چاہیئے، کیونکہ دونوں قابض ہیں۔ ایک فلسطین پر قابض ہے اور دوسرا کشمیر پر قابض ہے۔ ضرورت سے زیادہ سمجھداروں کی تحریروں پر ہمارے دوست حسین نے بڑا اچھا جواب دیا: ان مظلوموں کے پاس اور کیا آپشن بچا تھا، جو وہ آپ کی وضع کردہ سو کالڈ “سمجھداری” کا مظاہرہ کرتے۔؟ ان کی زمین چھین لی گئی۔ ان کے نوجوان مار دیئے گئے۔ ان کے بچوں کو نہ چھوڑا گیا۔ غرض کہ پچھلے کئی عشروں سے ان سے جینے کا بنیادی حق ہی چھین لیا گیا۔ یہ وہ واحد ملک ہے، جسے زندہ رہتے دنیا کے نقشے سے ہی غائب کر دیا گیا۔ تو اس صورتحال میں وہ اور کیا کرتے؟ یہ تو ہماری کمزوری ہے کہ وہ مظلوم گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ سب اسرائیل کے ساتھ کیا جاتا تو مغرب آپ کا کیا حشر کرتا۔؟