ایام عزا کے فانوس میں توحیدی تصور حیات کی شمع جلانے کی ضرورت

امام حسین علیہ السلام کو صرف اپنی فکر نہ تھی بلکہ سماج و معاشرے کی تڑپ آپکے دل میں تھی آ پ دیکھ رہے تھے توحیدی راستے سے ہٹ جانے والا یہ سماج کس قدر پستی کی طرف جا رہا ہے لہذا آپ نے دوبارہ اسے اپنی منزل پر لانے کے لئے قیام فرمایا یہ عزاداری اسی قیام کربلا کا تسلسل ہے ہم سب کے لئے لازم ہے کہ اسے بھرپور انداز میں زور و شور کے ساتھ منائیں اور کوشش کریں کہ اس کے سایے میں توحیدی تصور حیات واضح ہو سکے انشا ء اللہ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: معنوی بحران سے دوچار اس مادیت کے سمندر میں غرق ہوتی ہوئی دنیا کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں ایسا نظام قائم ہو جہاں ذات پات رنگ و نسل و قوم قبیلہ کی بنیاد پر حقوق کا تعین نہ ہو کر صلاحیت و استعداد کی بنیاد پر ہر انسان کو اسکا حق ملے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے ساتھ شریک سارے مادی تصورات و عقائد کو کنارے لگا کر وحدہ و لاشریک کو اپنی زندگی کا مالک و مختار قرار دے اور اسی کے فرامین کے مطابق جادہ حیات پر آگے بڑھے.
توحیدی تصور حیات کے مطابق زندگی کی ڈگر کو متعین کرنے کے لئے ہمارے پاس کربلا جیسے آفاقی تعلیمات موجود ہیں جن میں کبھی کہنہ پن نہیں آ سکتا جو ہر دن کے سورج کے ساتھ اور نکھر کر سامنے آتے ہیں ، ہمارے لئے کربلا کے تعلیمات تک پہنچنے کے لئے بہترین موقع یہی ایام عزا ہیں ۔
ایام عزا کو بہتر سے بہتر طور پر منانے کی ضرورت :
ہم ایک بار پھر زہرا سلام اللہ علیہا کے لعل کا ماتم کرنے کے لئے آمادہ ہیں ، ایک بار پھر ہم شمشیر پر خون کی فتح کے باوقار وعظیم الشان ایام کی دہلیز پر کھڑے ہیں ، ہم ایک بار پھر وہ غم منانے کے لئے تیار ہیں جو محض غم ہی نہیں ہے ہمیں ہمارے تشخص سے آشنا کرتا ہے ، ہماری شناخت کو ہمارے سامنے رکھتا ہے وہ غم جو ہمارے لئے اکسیر حیات ہے ۔
ایام عزا جیسے ہی شروع ہوتے ہیں جہاں ایک طرف ان ایام کو بہتر طور پر منانے اور حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے پیغام و مقصد کی بہتر طور پر تشریح کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جہاں ادارے انجمنیں متحرک ہو جاتی ہیں ، ہر طرف سیاہ پرچم نظر آتے ہیں ، گلی و کوچوں میں ننھے ننھے بچے چھوٹے چھوٹے علم و مشکیزے لئے کربلا کی تشنگی کا منظر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ، جہاں ہر طرف سبیلیں بینرز اور اقوال امام حسین علیہ السلام کے پلے کارڈز دکھتے ہیں عزا خانوں میں ایک رونق ہوتی ہے وہیں ہر سال کچھ لوگ نئے نئے شگوفے بھی چھوڑتے ہیں ، اعتراضات کا بازار بھی گرم ہو جاتا ہے ایسے نہیں ویسے کرو یہ نہیں وہ کرو یہ ساری چیزیں ان ایام عزا میں دیکھنے کو ملتی ہے ، شک نہیں کہ سب کچھ شریعت کے دائرہ میں ہونا چاہیے کوئی بھی چیز شریعت کے دائرے سے باہر نہیں ہے اور کوئی چیز اگر شریعت کے حدود سے باہر جاتی ہے تو شک نہیں ہے کہ حضرت ابا عبد اللہ الحسین ع اسے پسند نہیں فرمائیں گے کیونکہ آپ نے اپنی اور اپنے جانثاروں کی شہادت اس لئے نہیں دی تھی کہ آپ کے نام پر شریعت کا مذاق بن جائے یا آپ کے غم میں ہم اتنے ہوش و حواس کھو دیں کہ ہمیں احساس ہی نہ ہو کہ یہی دین ہی تو تھا جسکی حفاظت کی خاطر امام حسین ع علیہ السلام نے اپنی جان دے دی ۔ اس بات میں شک نہیں کہ سب کچھ شریعت کے دائرے میں ہی ہونا چاہیے لیکن کبھی کبھی کچھ تنگ نظر فکری جنون میں مبتلا افراد ہر چیز میں اس طرح اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاشرہ میں فساد لازم آتا ہے ، بہت سے ایسے شبہے سامنے آ جاتے ہیں جس سے جوان نسل کا ذہن کنفیوژ ہو جاتا ہے ایسے میں ہم سب پر لازم ہے کہ شکوک و شبہات کا بجا طور پر ازالہ کرتے ہوئے کوشش کریں کہ ان ایام عزا کی رونق سے کوئی سمجھوتہ نہ ہو ، جہاں ایک طرف پیغام کربلا کا ابلاغ ہمارے پیش نظر رہے وہیں ضروری ہے کہ ان لوگوں کو بھی جواب دیا جائے جو ہر آنے والے محرم میں اپنے فکری خبط کو ظاہر کرتے ہیں ، آج کل بعض روشن خیال افراد اس قسم کی باتیں بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا غم منانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سڑکوں پر آئیں کیا ضروری ہے کہ کم بار نکلیں ، کیا ضروری ہے کہ دوسروں کو ڈسٹرب کریں غم امام حسین ع تو گھر کی چاردیواری میں امامبارگاہ کے اندر بھی منایا جا سکتا ہے ، باہر نکلنے ماتمی دستوں کی تشکیل ، سڑکوں پر سبیلیں لگانے کی ضرورت کیا ہے ؟ کیا عبادت میں بھی شور شرابے اور تشہیر کی ضرورت ہے ، اگر یہ عمل مستحب ہے تو اسے خاموشی کے ساتھ کیوں نہیں منایا جا سکتا جب کہ زیادہ تر مستحبات کے لئے حکم ہے کہ خاموشی کے ساتھ ان پر عمل ہو ، کیا اس عمل کی فضیلت نہیں جو خاموشی کے ساتھ انجام پائے ؟ اگر ہم اس طرح کی باتوں پر غور کریں گے تو متوجہ ہوں گے کہ اس طرح کے سوالات اٹھانے والے نہ مقصد عزا کو پہچانتے ہیں اور نہ فکر حسینیت کو انہوں نے سمجھا ہے ایسے لوگوں نے ابھی مقصد عزا کو سمجھا ہی نہیں ہے۔
دین کے اندر خاموشی کے ساتھ مستحبات پر عمل کا حکم اور عزاداری :
شک نہیں کہ دین کے اندر مستحبات کے سلسلہ سے حکم ہے کہ شور شرابے سے پرے خاموشی کے ساتھ انہیں انجام دیا جائے جیسا کہ امام رضا علیہ السلام کی معروف حدیث ہے جس میں عباس بن ہلال سے نقل ہے ’’ کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: ایک اچھا اور نیک کام خاموشی کے ساتھ انجام دینا ستر نیک کاموں کے برابر ہے اور جس نے ایک برا کام آشکار طور پر انجام دیا وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو گیا جس نے برا کام برملا طور پر نہیں کیا امید کہ اسے معاف کر دیا جائے گا ۔
مرحوم آیت اللہ کمپانی کے سلسلہ سے ملتا ہے کہ نجف اشرف میں آپ نے ایک طولانی سجدہ کیا ، آپ خود فرماتے ہیں ایک دن نجف اشرف میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حرم میں میں نے سجدے میں مختلف اذکار پڑھے اسی اثنا میں ایک مکاشفے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی جس میں مولا ئے کائنات نے گو کہ مجھے مخاطب کر کے فرمایا اے کمپانی یہ طولانی سجدے کیوں ؟ اگر انہیں انجام دینا ہے تو مسجد کے بجائے گھر پر انجام دو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تم پر جال ڈال دے ، اسقدر خاموشی کے ساتھ اعمال کی انجام دہی کی تاکید جہاں دین میں ہے وہیں کچھ اعمال ایسے ہیں جنہیں آشکار طور پر کھلم کھلا انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے انہیں اعمال میں ایک شعائر اللہ ہیں ، جن کے سلسلہ سے حکم ہے کہ انکا احترام کیا جائے اور انکی یاد کو اس طرح منایا جائے کہ لوگ دیکھیں، حتی بعض مستحب اعمال میں تاکیدا کہا گیا ہے کہ خاموشی کے ساتھ نہیں اس طرح انجام دو کہ دوسرے لوگ سنیں جیسے محمد و آل محمد پر صلوات ہے ۔
روایت کہتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر بلند آواز میں صلوات بھیجو اس لئے کہ صلوات نفاق کے ختم ہونے کا سبب ہے۔
شعائر اللہ کا حکم بھی ایسے ہی ہے ارشاد ہوتا ہے : یہ اللہ کے شعائر [ نشانیوں ] میں ہے جو انکی عظمت کا قائل ہو اور انکا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقوی کا سبب ہے۔
عزاداری سید الشہدا اور شعائر الہی :
عزاداری سید الشہدا بھی شعائر الہی میں سے ایک ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے سلسلہ سے بھی خاص اہتمام ہو ، زور شور سے عزائے سید الشہدا ء کو منایا جائے تاکہ سب کو احساس ہو ہمارا تعلق کس مکتب سے ہے اور ہم کس ذات سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس لئے کہ کربلا محض ۶۱ ہجری کا واقعہ نہیں یہ ۶۱ ہجری میں رونما ضرور ہوا ہے لیکن اسکا تعلق ہر دور سے ہے ہر زمانے سے ہے ہمیں ہر دور میں حسین صفت لوگوں کی پہچان کی ضرورت ہے ہمیں ہر دور کے یزید کو پہچاننے کی ضرورت ہے یہ عزاداری ایک ذریعہ ہے حسینیت و یزیدیت کی شناخت کا ۔ عزاداری ذریعہ ہے توحید کی حقیقت تک پہنچنے کا ، عزاداری ذریعہ ہے یہ بتانے کا کہ توحید کتنی قیمتی ہے اس لئے کہ حسینیت کی تشریح و تبیین عزاداری ہی کے ذریعہ نسلا بعد نسل ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے حسینیت تصور توحید کے کمال کو پیش کرتی ہے ۔آج ہم اپنے ملک میں ہر دور سے زیادہ اس تصور توحیدی کے محتاج ہیں اس لئے آج ہمارے یہاں جو ان گنت بے شمار مسائل ہیں، اگر ہم ان کی تہہ میں جائیں گے تو متوجہ ہوں گے یہ سب اس لئے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کے لئے فیصلے لے رہا ہے، اپنے فائدے کے لئے کئے گئے فیصلے دوسروں کو ہرگز فائدہ نہیں پہنچا سکتے لہذا ضرورت ہے ایک عادلانہ نظام حیات کی۔ اب سوال یہ ہے وہ کہاں سے قائم ہو، آج ملک ہی کی بات نہیں ہے دنیا میں جو افرا تفری ہے وہ اونچ نیچ کی وجہ سے ہے ظلم و ستم کی وجہ سے عدم مساوات کی بنا پر ہے۔
ّآج دنیا مساوات کی طلبگار ہے اب جہاں مساوات کی بات آتی ہے تو ہماری نظریں تقسیم پر جاتی ہیں لیکن سب کو ایک جیسی چیزوں کو دے دینا مساوات نہیں ہے ایک مقام پر سید العلماء علامہ سید علی نقی صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی ’’ اس کیلئے آپ دولت کو تو برابر تقسیم کرسکتے ہیں مگر انسانوں میں جو صلاحیتوں ، وجاہتوں ، کثرت قبیلہ، اور ذہانتوں کا فرق ہے اس میں مساوات کیسے قائم کرسکتے ہیں یہ بھی تو ہمارے درمیان اختلاف کی بڑی وجہ ہے صاف ظاہر ہے کہ اس فرق کو خارجی طور پر مٹانا ناممکن ہے۔تو کیا کیا جائے ؟
برابری چاہتے ہیں تو کثرت کو وحدت کی طرف موڑیے خود بخود اجزاء میں برابری پیدا ہوجائے گی۔
جیسے کہ ماں باپ کی وجہ سے اولاد میں اور جد اعلی کی وجہ سے کئی خاندانوں میں برادری کا ، دیس کی وجہ ہم وطنی کا اور سمتوں کی وجہ مشرقی اور مغربی تصور اور وحدت پیدا ہوتی ہے۔مگر یہ سارے اتحاد کے مرکز افتراق کا پیش خیمہ ہی ہیں کیونکہ ایک خاندان اگر متحد ہے اسی کے مقابل دوسرا خاندان وجہ اختلاف ہے ایسے‌ میں کبھی عالمگیر اتحاد پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر امتیاز عالم انسانیت کے بیچ اٹھائی گئی ایک دیوار ہے۔ تو اس اختلاف کا حل کیا ہے؟ اسلام کا عالم گیر پیغام عام کیا جائے اور وہ پیغام ہے :
قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا یہی اسکا حل ہے
جب ایک ماں باپ اور ایک ملک کے باشندے بھائی بھائی ہوسکتے ہیں تو ایک خالق کے بندے بھائی بھائی کیوں نہیں ہوسکتے؟
پس اللہ کی ذات مرکز وحدت ہے مگر یہ وحدت صرف اللہ کو مان لینے سے نہیں بلکہ اس کو ایک ماننے سے حاصل ہوتی ہے۔
ہم چاہے لاکھ امن عالم کی بات کریں لیکن ہمارے دل میں من ہی ہوتا ہے اور ایسی مصالحت خود جنگ کا مقدمہ بن جاتی ہے ایسی جنگ جو مشینوں سے بھی لڑی جاسکتی ہے اور دماغوں کے ساتھ بھی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
مشترک مفاد پیش نظر نہ ہونے کی وجہ سے جب تمدن ترقی کرکے گھر سے گھرانوں اور گھرانوں سے قبائل اور قبائل سے سلطنت اور سلطنتوں سے مشرق و مغرب کی دو وحدتوں میں سمٹ سکتا ہے تو اسکا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے؟
اگلا قدم صرف توحید ہے
لیظھرہ علی الدین کلہ
صرف معرفت خالق سے ہی ایسا اخوت کا رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔
سارے رشتوں میں وحدت اور مساوات تو بتانے کیلئے بھائی چارگی اور اخوت کے لفظ کو کیوں چنا گیا؟
اس لئے کہ صرف اخوت کا رشتہ ہی ایسا رشتہ ہے جس کے حقوق مساوی ہیں اس لئے مساوات اور برابری کے مفہوم کیلئے اخوت اور بھایی چارگی کا لفظ انتخاب کیا گیا ہے۔
عقیدہ توحید کا خالص مفہوم کی وجہ سے اسلام ہی وہ مذہب ہے جو مساوات کا حقیقی علم بردار ہے۔
یاد رکھیے مساوات سے اخوت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اخوت سے مساوات اور برابری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اخوت کثرت سے وحدت کی طرف بڑھنے سے پیدا ہوتی ہے اور وحدت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے کیونکہ ساری مخلوقات کا وہی خالق ہے‘‘۔
عزاداری کا حقیقی پیغام اور توحیدی تصور حیات کی وضاحت کی ضرورت :
یہ عزادری کیا ہے یہ عزاداری در حقیقت اسی پیغام کو ہم تک منتقل کرنے کا ذریعہ جو امام حسین علیہ السلام لیکر چلے تھے جسکا نچوڑ توحید کے سایے میں انسانی قافلے کی رہنمائی تھی آج ایک بار پھر ہم دیکھ رہے ہیں ، کہ دنیا کس سمت میں جا رہی ہے کس ڈگر پر گامزن ہے آج سائنس کے اوپر پوری دنیا کا انحصار ہے لیکن دنیا کے تمام مسائل کا حل سائنس نہیں ہے اسکے پاس ضرورتوں کو ختم کرنے کے لئے محض مادی مسائل ہیں یہ وقتی طور پر جنم لینے والے بعض مسائل کو مشین کے ذریعہ ضرور حل کر سکتی ہے ، روز مرہ کی زندگی میں آسانیاں ضرور پیدا کر سکتی ہے لیکن روز مرہ کے مسائل کا جواب اس کے پاس نہیں ہے روح کے سوالات کا جواب اس کے پاس نہیں ہے ، عزائے سید الشہدا اس لئے اہم ہے کہ سائنس و ٹکلنالوی کی یکنواخ رفتار سے نکال کر ہمیں ایک وسیع میدان میں لا کر کھڑا کرتی ہے جہاں عشق کی حکمرانی ہے جہاں سب کچھ معبود کی راہ میں لٹانے والے کی یاد منائی جاتی ہیں ، جہاں ایثار و فداکاری کا درس ملتا ہے ، آج دنیا میں کیا ہے ؟ جس کو جو ملے جھپٹ لو یہ دنیا کا اصول ہے لیکن کربلا ہمیں توحیدی اصول سے آشنا کرتی ہے ہمیں بتاتی ہے تمہارے پاس جو کچھ ہے تمہارے مالک کا ہے تمہیں سب کچھ اس کی راہ میں قربان کرنے کا ہنر آنا چاہیے یہی ہنر حقیقیت میں لذت حیات سے آشنا کرنے کا ذریعہ بنے گا ۔
آج ہم دیکھیں ہمارے ملک میں کس طرح انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر مذہب کے نام پر حیوانیت کا ننگا ناچ ہو رہا ہے کیا اسے لگام دینا ہماری ذإمہ داری نہیں ہے ، ہم محض ایک ایسے عزادار نہیں ہیں جسے اپنی عزاداری سے مطلب ہے ، نہ قوم سے مطلب نہ ملک سے نہ سماج سے ، اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو غلط ہے یہ کربلائی فکر نہیں ہے امام حسین علیہ السلام کو صرف اپنی فکر نہ تھی بلکہ سماج و معاشرے کی تڑپ آپکے دل میں تھی آ پ دیکھ رہے تھے توحیدی راستے سے ہٹ جانے والا یہ سماج کس قدر پستی کی طرف جا رہا ہے لہذا آپ نے دوبارہ اسے اپنی منزل پر لانے کے لئے قیام فرمایا یہ عزاداری اسی قیام کربلا کا تسلسل ہے ہم سب کے لئے لازم ہے کہ اسے بھرپور انداز میں زور و شور کے ساتھ منائیں اور کوشش کریں کہ اس کے سایے میں توحیدی تصور حیات واضح ہو سکے انشا ء اللہ ۔۔۔