بقلم سید مشاہد عالم رضوی
اقتدار ایک سنک ہے مل جائے تو پاگل پنہ ہے جسے اقتدار مل جاتا ہے وہ اپنے کو خدا سمجھنے لگتا ہے ۔
بہت کم ہی صاحبان اقتدار ہوں گے جو اقتدار حاصل ہونے پراس جنون کا شکار نہیں ہوتے اور عوام کی خدمت کرتے ہیں لکین اکثریت شکار ہوتی ہے اور شکار رہی ہے ۔
تاریخ ذرا کھنگالیں تو سچائی سامنے آجائے گی۔
موجودہ دور میں مغربی برادری گاہ بگاہ اس سنک سے دورچار ہوتی رہی ہےاور مسٹرامریکہ توپاگل پنے کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔
اگرچہ روس جیسے ممالک بشمول چین وغیرہ اس سنگ سے مثتثنی نہیں مگر نہ جانے کیا بات ہے ؟
کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسا کیا ہوا کہ دنیا بھر کی چھوٹی بڑی ریاستوں نے امریکہ کو اپنا آقا مان لیا جس کے نتیجے اب خود بھوگت رہے ہیں۔
آج امریکہ اپنی دیوانگی کی حدیں پار کر چکا ہےاور جہاں کہیں بھی دنیا بھرمیں تخریبی کاروائی ہوتی ہے تو خبریں آتی ہیں کہ امریکہ کا اسکے پیچھے ہاتھ ہے۔
دوسری طرف اس کا بغل بچہ اسرائیل اس کی دودھ پلائی سے اب اتنا تندرست ہوچکا ہے کہ وہ خود اپنی دایہ امریکہ کی بھی ان سنی کردے رہا ہے اور یہی اسرائیل امریکہ کی چھاتی چوس چوس کر اب انسانی خون پینےکا عادی بن چکا ہے ۔
اور ستر سال سے بھی زیادہ عرصے سے فلسطین میں معصوم بچوں بیماروں اور بڈھوں عورتوں اور نہتے عوام کا بڑےچاو سے خون پیتانظر اتا ہے جبکہ یہ سب کچھ انسانی حقوق کا دم بھرنے والی پچھمی ریاستوں کے سامنے ہوتا آیا ہے ۔
چنانچہ فلسطین اور غزہ خود انہیں کی میڈیا اورانٹرنیشنل ذرائع ابلاغ کی گواہی کے مطابق اس بات کاثبوت فراہم کرتے ہیں ۔
یورپ کے سفید پوش حکمراں بھی اس کی اس آدا ئے حیوانی پر سرمست اور خوشحال ہیں اور ان سب کے باوجودحقوق انسانی کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔
امریکہ تو اسلحوں میزائلوں کے نیپول پر نیپول اسےدئے جارہا ہے یہاں تک کہ اسکی ملی بھگت سے غزہ میں نسل کشی سے سیرہوکر حالیہ دنوں ١٣ جون ٢٠٢٥ کو اسرائیل نے ایران پربھی حملہ کردیا ؟؟
حالانکہ امریکہ اور یورپی ممالک کی ہی منشأ پر عمان میں ابھی مذاکرات کا چھٹا دور سہی طور پر پورا بھی نہیں ہوا تھا۔
ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ادھر امریکی جھوٹ فیکٹری سے پھر بڑے بڑے جھوٹ نکلنے لگے ہیں جیسے ماضی میں عراق پر ایٹمی ہتھیاروں کا جھوٹ گڑھ کر سابق امریکی صدر جارج بش نےعراق پر حملہ کرکے دنیا بھر کو گمراہ کیا تھا اور عراق کو تباہ وبرباد کرکے خطہ کو بد امن کردیا اسی طرح
آج پھر اسی غلطی کو دہرایا جارہا ہے جبکہ بار بار آمریکہ سمیت دیگر انٹرنیشنل جوہری توانائی پر نظر رکھنے والے ادارہ جات نے ایران کے جوہری پلانٹ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک محض پر امن مقاصد کے ماتحت بتایا ہے اور اعتراف کیا اور اب بھی اعتراف کررہے ہیں کہ ایران بم نہیں بنا رہا اس کا پلانٹ پر امن مقاصد کے لئے ہے ۔
اب آپ اسے امریکہ اور اس کے حمایتی ممالک کا دوھرا معیار نہیں کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے؟
جب امریکہ اور انکے دیگر حلیف اس کاجواب نہیں دے پائے تو بات بدل کر ایران میں اقتدار کی منتقلی کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں جیسے ؟
لگتا ہے صدر امریکہ امریکہ کے نہیں ایران کے صدر ہوں جو اپنی کرسی چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں یہ ذہن کا دیوالیہ پن نہیں ہےتوکیاہے ؟
امریکہ تو بیان بازی کرتا ہے مگر حملے اسرائیل سے کراتا ہے جسے نیابتی جنگ کہتے ہیں امریکہ خطہ میں کئی برسوں سے یہی کھیل کھیلتا رہا ہے ۔
یہاں تک کہ امریکہ طاقت کے نشہ میں کہتاہے کہ ایران کو تسلیم ہونا پڑے گا خود کتنے مضبوط ہیں پلٹ کر نہیں دیکھتے ؟ امریکہ میں ان کے موافقین کتنے ہیں نہیں دیکھتے؟
چودھراہٹ میں اتنے بڑ بول کہ ساری دنیا مزاق اڑاتی پھر تی ہے ڈونالڈ ٹرمپ اقتدار کے نشہ میں ایران کو امریکہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔
مثل مشہور ہےکہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ آبادی کی طرف بھاگتا ہے ۔
سو آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا ؟۔۔۔
ایران کے سپرم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ نے ہمیشہ کی طرح صراحت کی ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے خود اپنے پیر میں کلھاڑی ماری ہے اور اپنےکو لاچار وبیچارہ کیا ہے تو شروعات کی ہے تواب نتیجہ بھی بھگتے ۔۔۔ انشاءاللہ
ضرور ایسا ہی ہوکےرہےگا۔ کیونکہ اسرائیل خونخوار بھیڑئے کی طرح نہتے عوام معصوم بچوں بھوکے پیاسے کھانے کی لائن میں کھانا لیتے ہوئے مردوں عورتوں پر گولیاں برساتا ہے اوراسپتالوں پر جھپٹتا پھرتا ہے جیسے وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا !!
تو پھر ایسے انسان نماجانورکو سبق سیکھنا اوراسے اسکی جگہ پر کان پکڑ کر بیٹھانا ہر عقلمند کا انسانی فرض بن گیا ہے۔
البتہ صاحبان اقتدار اگر متحد ہوتے اور مصلحت پسندی کا شکار نہ ہوتےتو یہ کوئی بڑا کام نہیں تھا
اورآج اگر مسلم ممالک اپنی نااہلی کی وجہ سے اقتدار جانے جانے کا خوف نہ رکھتےہوتے تو نہ غزہ تباہ وبرباد ہوتا نہ ایران پر اسرائیل حملہ کرنے کی ہمت کرتا ۔۔۔
مگر افسوس !
کیا کہا جائے فی الحال ایران نے خداوند متعال پر بھروسہ کرکے اکیلے ہیاپنی قوت وطاقت کے بل پر اسرائیل کاکان پکڑ لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل شرارت سے کب باز آتا ہے؟؟ اور امریکہ اسکی حمایت سے کنارہ کشی کرتا ہے یا نہیں؟؟۔۔۔
ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں