ایک سنوار رخصت ہوا؛ کئی سنوار آئیں گے

جس دن "یحییٰ سنوار" کو "شالیط" کے تبادلے کے طور پر آزاد کیا گیا، شاید کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ کمزور سا فلسطینی قیدی ایک دن شاندار آپریشن "طوفان الاقصی" کو ترتیب دے گا۔ اب "سنوار" شہید ہو چکے ہیں، لیکن ان کے تیار کردہ آپریشن سے کئی نئے رہنما خاکستر سے پیدا ہو چکے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جس دن “یحییٰ سنوار” کو “شالیط” کے تبادلے کے طور پر آزاد کیا گیا، شاید کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ کمزور سا فلسطینی قیدی ایک دن شاندار آپریشن “طوفان الاقصی” کو ترتیب دے گا۔ اب “سنوار” شہید ہو چکے ہیں، لیکن ان کے تیار کردہ آپریشن سے کئی نئے رہنما خاکستر سے پیدا ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارہ تسنیم کے مطابق، 2011 میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان ایک قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت قابض صیہونی حکومت کی جیلوں سے 1,027 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا، جن کے بدلے میں گیلعاد شالیط، ایک اسرائیلی فوجی، جو مزاحمتی تنظیم کے قبضے میں تھا، آزاد کر دیا گیا۔ یہ اس وقت تک فلسطینی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان ہونے والا سب سے بڑا تبادلہ تھا۔
اس بڑے معاہدے میں 310 ایسے فلسطینی قیدی شامل تھے جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان میں سے ایک نمایاں شخصیت فلسطینی مزاحمت کے معروف رہنما یحییٰ سنوار تھے۔
یحییٰ سنوار، جو ابو ابراہیم کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، پہلی بار 1982 میں صیہونی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور انہیں چار ماہ قید کی سزا دی گئی۔ 1985 میں انہیں حماس کی سیکیورٹی اور انٹیلیجنس تنظیم “مجد” کے قیام اور قیادت کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر کے آٹھ ماہ قید کی سزا دی گئی۔ لیکن یہ ان کی جدوجہد کا آغاز تھا۔
بعد میں انہوں نے یحییٰ عیاش اور صلاح شحادہ کے ساتھ مل کر حماس کے عسکری ونگ کی بنیاد رکھی، جس کے نتیجے میں انہیں چار بار عمر قید اور مزید 30 سال کی سزا سنائی گئی، یعنی کل 430 سال کی قید۔قید و بند کبھی بھی یحییٰ سنوار کو روک نہ سکا۔ صیہونی حکومت کی جیلوں میں رہتے ہوئے، انہوں نے عبرانی زبان سیکھی، اسرائیلی ثقافت اور معاشرت کا مطالعہ کیا، ایک ناول لکھا اور کئی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ سنوار نے جدوجہد ترک نہیں کی، بلکہ وہ فلسطینی قیدیوں کے رہنما کے طور پر ابھرے اور متعدد بار بھوک ہڑتالوں کی قیادت کی۔ بالآخر، 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت وہ آزاد ہو گئے۔
چونکہ سنوار خود قیدی رہ چکے تھے، اس لیے وہ فلسطینی اسیران سے گہرا تعلق اور عزم رکھتے تھے۔ رہائی کے بعد، انہوں نے مختلف مواقع پر اعلان کیا کہ وہ اپنے قیدی ساتھیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ان کی آزادی کے لیے صیہونی حکومت کے خلاف ایک بڑا اقدام کریں گے۔
یحییٰ سنوار، جنہیں “طوفان الاقصی کا معمار” کہا جاتا ہے، نے آپریشن طوفان الاقصی کے پیچھے جو سب سے بڑا مقصد رکھا، وہ فلسطینی قیدیوں کی آزادی تھا۔ اس تاریخی آپریشن کے بعد، انہوں نے کھل کر اعلان کیا کہ اس کارروائی کا پہلا اور سب سے اہم ہدف، صیہونی حکومت کی قید میں موجود تمام فلسطینی اسیروں کی رہائی ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر اسرائیل اپنے قیدیوں کو آزاد کرانا چاہتا ہے، تو اسے بدلے میں تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔

صیہونیوں کا سرِ تسلیم خم کرنا
آپریشن طوفان الاقصی نے صیہونیوں کو اس سے کہیں زیادہ غصہ دلایا، جتنا پہلے سوچا گیا تھا۔ پندرہ ماہ تک وہ ہر ممکن کوشش کرتے رہے، ہر دروازہ کھٹکھٹایا، ہر ظلم روا رکھا، لیکن مزاحمتی محاذ ان کے مطالبے کے آگے جھکنے کو تیار نہ ہوئے۔ اس دوران، وہ بے شمار جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے، مگر مقاومت کی شاندار حکمتِ عملی ایسی تھی کہ 470 دنوں کی مسلسل بمباری اور جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی کے باوجود، وہ اپنے قیدیوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہے۔
انجام کار، ناکامی اور بے بسی کے عالم میں، صیہونیوں کو مجبور ہو کر قیدیوں کے تبادلے پر رضامند ہونا پڑا۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ دباؤ کا بہانہ بنا کر اپنی شکست کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

سنوار کی شہادت، ان کی کامیابی

اگرچہ یحییٰ سنوار اب فلسطینی مجاہدین کے درمیان موجود نہیں، مگر ان کی بنائی ہوئی حکمت عملی آج نتیجہ دے رہی ہے۔ مقاومت کا یہ عظیم ذہن اپنی شہادت کے بعد بھی اپنے وعدے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا، اور اب فلسطینی اسیر مرحلہ وار اسرائیلی جیلوں سے آزاد ہو رہے ہیں۔
جب 2011 میں شالیط کے تبادلے میں یحییٰ سنوار آزاد ہوئے، تو شاید کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کمزور اور نحیف نظر آنے والا فلسطینی جنگجو، ایک دن “طوفان الاقصی” جیسے شاندار آپریشن کی قیادت کرے گا۔ مگر آج، اس کی شہادت کے بعد اس کے لگائے ہوئے بیج پھل دے رہے ہیں۔

“سنوار” گیا، مگر “سنوار” آئیں گے

آج، اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے کچھ فلسطینی مجاہدین ابھی کم معروف ہو سکتے ہیں، مگر ان کی شاندار مزاحمتی تاریخ اور القدس کی آزادی کے لیے ان کا پختہ عزم، انہیں مستقبل میں ایک نئی پہچان دے گا۔ یقینا، یہ مجاہدین، یحییٰ سنوار کی طرح ایک دن صیہونیوں کے لیے ایک نئی آزمائش بنیں گے۔
اسرائیلیوں کو سمجھ لینا چاہیے: ایک “سنوار” چلا گیا، لیکن سنواروں کی ایک نئی نسل اُبھر رہی ہے!